29 جنوری ، 2025
گزشتہ کئی برسوں سے امریکا کی جانب سے آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے شعبے میں قائدانہ کردار ادا کیا جا رہا تھا مگر اب امریکی کمپنیوں کو ایک چینی کمپنی سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
درحقیقت یہ چین کی 4 بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں بھی شامل نہیں بلکہ کچھ عرصے پہلے تک اس چینی کمپنی کو بہت کم افراد جانتے تھے۔
چین کی کسی بڑی کمپنی کی بجائے ایک نامعلوم کمپنی ڈیپ سیک کے اے آئی چیٹ بوٹ نے اس ہفتے امریکا میں ایپل کے ایپ اسٹور میں نمبرون ایپ کا اعزاز حاصل کیا جبکہ امریکی اسٹاک مارکیٹ کو ہلاکر رکھ دیا جسے کھربوں روپوں کے نقصان کا سامنا اس چیٹ بوٹ کی وجہ سے ہوا۔
اس کمپنی کو کام کرتے ہوئے ابھی 2 سال بھی مکمل نہیں ہوئے اور اسے اب عالمی سطح پر اے آئی کی دوڑ میں اہم ترین قرار دیا جارہا ہے۔
ایسا اس وقت ہوا جب کمپنی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اس نے ایسے اے آئی ماڈل کو 60 لاکھ ڈالرز سے بھی کم لاگت میں تیار کیا ہے جو اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔
خیال رہے کہ اوپن اے آئی کے اہم ترین شراکت دار مائیکرو سافٹ نے اس سال اے آئی انفرا اسٹرکچر پر 8 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی ہے۔
مگر ڈیپ سیک کے پیچھے کون ہے اور کس طرح اس کمپنی نے یہ متاثر کن کامیابی اتنے کم وقت میں حاصل کی؟
اس کمپنی کی بنیاد مئی 2023 میں لیانگ وین فینگ نے گوانگ ڈونگ صوبے میں رکھی تھی۔
اس کی کامیابی کا راز بظاہر یہ ہے کہ اسے کمرشل یا منافع کے حصول کی بجائے خالصتاً ریسرچ پر مبنی ادارے کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔
2024 میں کمپنی کے ایک اولین ماڈل کو متعارف کراتے ہوئے ایک انٹرویو میں لیانگ وین فینگ نے بتایا کہ 'ہمارا مقصد منافع کا حصول یا پیسے کا ضیاع نہیں، ہمارا آغاز دولت کمانے کے موقع سے فائدہ اٹھانا نہیں بلکہ ہم ٹیکنالوجی کو ترقی دینا چاہتے ہیں اور پورے ڈھانچے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں'۔
ڈیپ سیک کے لیے سرمایہ لیانگ وین فینگ کے High-Flyer Capital نامی hedge fund سے فراہم کیا گیا جس کا آغاز انہوں نے 2015 میں Zhejiang یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا تھا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے بڑی سافٹ وئیر کمپنیوں میں پروگرامر کی ملازمتوں کو نظرانداز کرکے اے آئی پر توجہ مرکوز کی۔
High-Flyer Capital کے ساتھ لیانگ وین فینگ نے اے آئی کو حصص کی قیمتوں کو جاننے کے لیے استعمال کیا اور بہت زیادہ پیسہ کمایا۔
2021 میں ان کے اثاثوں کی مالیت 100 ارب چینی یوآن سے تجاوز کرگئی تھی۔
اسی سال ایسی افواہیں سامنے آئی تھیں کہ لیانگ وین فینگ نے Nvidia کے گرافک پراسیسنگ یونٹس کو بہت بڑی تعداد میں خریدا ہے، درحقیقت انہوں نے 10 ہزار چپس کو خریدا تھا۔
2023 میں انہوں نے بتایا کہ 'بیشتر افراد کا اس وقت خیال تھا کہ نامعلوم کاروباری منطق ان چپس کی خریداری کی وجہ ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے ایسا میں نے تجسس کی وجہ سے کیا'۔
اس کا انہیں فائدہ بھی ہوا کیونکہ 2022 میں اس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن نے چینی کمپنیوں کو چپس کی فروخت کے حوالے سے پابندیاں عائد کیں، جس کا مقصد چین کو اے آئی کے شعبے میں تیزی سے آگے بڑھنے سے روکنا تھا۔
Nvidia کی طاقتور ایچ 100 چپ کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی، جس کے بعد کمپنی نے کم طاقتور ایچ 800 چپ کو چینی مارکیٹ کے لیے تیار کیا جس پر بھی 2023 میں پابندی عائد کر دی گئی۔
لیانگ وین فینگ نے بتایا کہ ہمارا سب سے بڑا چیلنج کبھی بھی سرمایہ نہیں رہا بلکہ طاقتور چپس کے حصول میں رکاوٹ سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوا۔
لیانگ وین فینگ ذاتی طور پر ڈیپ سیک کی تحقیقی سرگرمیوں میں شامل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ کمپنی کے گوانگزو کے کیمپس کے لیے مقامی ٹیلنٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ڈیپ سیک کی کامیابی زیادہ متاثر کن ہے کیونکہ امریکا کو جدید ترین چپس کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے اے آئی کے شعبے میں چین پر برتری حاصل ہے اور وہاں کی یونیورسٹیاں اس شعبے کے لیے بہترین افراد تیار کر رہی ہیں۔
ڈیپ سیک کے طاقتور ماڈل کے لانچ سے عندیہ ملتا ہے کہ چینی ماہرین نے امریکی پابندیوں سے بچ کر آگے بڑھنے کا ذریعہ دریافت کرلیا ہے۔
ڈیپ سیک کے ماڈل کی کامیابی کے بعد ممکن ہے کہ امریکا کی جانب سے پابندیوں کو سخت کیا جائے۔
کچھ تجزیہ کاروں اور سرمایہ کاروں نے ڈیپ سیک کے دعوؤں پر رائے ظاہر کی ہے۔
ایک امریکی تجزیہ کار الیگزینڈر وانگ کے مطابق چینی لیبارٹریز کے پاس لوگوں کی توقعات سے زیادہ ایچ 100 چپس موجود ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ ڈیپ سیک کے پاس جدید ترین چپس کا ذخیرہ موجود ہے جو اس نے امریکی پابندیوں کی وجہ سے عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا۔
ڈیپ سیک کی جانب سے اپنے ملازمین کو اچھی تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ بڑی کمپنیوں کے ڈویلپرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔
جہاں تک لیانگ وین فینگ کی بات ہے تو وہ عوامی نظروں سے دور رہتے ہیں۔