17 فروری ، 2025
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کی آمد کے ساتھ، پاکستان کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی، کھلاڑیوں کی فٹنس، اور کلیدی کھلاڑیوں کی فارم کا تجزیہ نہایت اہم مور بن گئے ہیں۔
جہاں ایک جانب ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں شائقین اور سابق کھلاڑیوں نے ٹیم کی متوقع کارکردگی پر خدشات بھی اٹھا دیے ہیں۔
پاکستان نے حالیہ برسوں میں ون ڈے کرکٹ میں ملی جلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2023 میں ٹیم نے 25 میچز میں سے 14 میں فتح حاصل کی، جو 56 فیصد جیت کی شرح کو ظاہر کرتا ہے۔ 2024 میں، پاکستان نے 9 میں سے 7 میچز جیتے، جس سے جیت کی شرح 77.78 فیصد رہی۔ 2025 کے آغاز میں، ٹیم نے 3 میچز کھیلے، جن میں سے 1 میں کامیابی حاصل کی۔
ایک نمایاں میچ 12 فروری 2025 کو کراچی میں جنوبی افریقا کے خلاف سہ فریقی ٹورنامنٹ کا تھا، جہاں پاکستان نے 352 رنز کا مشکل ہدف کامیابی سے حاصل کیا۔ اس میچ میں سلمان آغا نے 134 اور محمد رضوان نے ناقابل شکست 122 رنز بنائے، جس کی بدولت پاکستان نے یہ میچ چھ وکٹوں سے جیتا۔
اس کے علاوہ 2023 میں پاکستان نے افغانستان کے خلاف سری لنکا میں 3-0 سے سیریز جیتی، اور اسی سال نیوزی لینڈ کے خلاف 4-1 سے کامیابی حاصل کی۔ 2022 میں، ٹیم نے ویسٹ انڈیز اور نیدرلینڈز کے خلاف بھی 3-0 سے فتوحات حاصل کیں۔ اس ٹورنامنٹ میں جہاں بھارت، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور آسٹریلیا کی مضبوط ٹیمیں شرکت کررہی ہیں وہیں بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان کی ٹیمیں کسی بھی وقت میچ اور ٹورنامنٹ میں بازی پلٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
جہاں ایک جانب ٹیم میں خوشدل شاہ، فہیم اشرف کی واپسی پر تنقید اور فخر زمان کے فٹ ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وہیں کچھ کھلاڑیوں کی فارم کے لحاظ سے ملی جلی آرا بھی سامنے آرہی ہیں۔ پاکستان کی موجودہ ٹیم میں کئی کلیدی کھلاڑی شامل ہیں جو چیمپئنز ٹرافی میں ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
محمد رضوان نے حالیہ برسوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی بیٹنگ میں کسی قدر مستقل مزاجی اور وکٹ کیپنگ میں مہارت ٹیم کے لیے قیمتی اثاثہ ہیں۔ 12 فروری 2025 کو جنوبی افریقا کے خلاف ناقابل شکست 122 رنز ان کی بیٹنگ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہاکستان کا مڈل آرڈر ان پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
بابر اعظم کا شمار دنیا کے بہترین بلے بازوں میں ہوتا ہے۔ ان کی حالیہ کارکردگی اور بڑی اننگز نہ کھیل پانے کو لیکر مداحوں میں بہت مایوسی ہے۔ بابر جہاں اپنی اننگز کی اچھی شروعات کررہے ہیں وہیں کوئی بڑی اور میچ وننگ اننگ کھیلنے میں ناکام ہیں۔ صائم ایوب کی غیرموجودگی میں اب ان پر اوپننگ کرنے کا بوجھ الگ ہے۔ بابر اعظم کی فارم پاکستان ٹیم کیلئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
فخر زمان اپنی جارحانہ بیٹنگ کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی تیز رفتار اننگز ٹیم کو مضبوط آغاز فراہم کرتی ہیں، جو بڑے اسکور کے لیے ضروری ہے۔ ٹیم میں ان کی واپسی سے ٹورنامنٹ میں پاکستان کیلئے ایک مستحکم اور تیز آغاز کی امیدیں روشن ہوگئی ہیں۔
دوسری جانب شاہین شاہ آفریدی اننگز کے آغاز سے اپنی تیز رفتار سوئنگ بولنگ اور مخالف ٹیموں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کیلئے مشہور ہیں۔ ان کی ابتدائی اوورز میں وکٹیں لینے کی صلاحیت کسی بھی میچ کا رخ پاکستان کی جیت کی جانب موڑ سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ان سے جس کارکردگی کی توقع ہے وہ پوری نہیں ہورہی۔ اگر شاہین نیوزی لینڈ اور انڈیا کے خلاف میچوں میں چل گئے تو ٹورنامنٹ میں پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچا سکتے ہیں۔
جہاں حارث رؤف کی رفتار اور یارکرز ڈیتھ اوورز میں مؤثر ثابت ہوتی ہیں، ویسے ہی ان کی فٹنس کی بحالی ٹیم کے لیے خوش آئند بن سکتی ہے۔ اگر حارث روف پاکستان کیلئے نمایاں کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوئے تو پاکستانی باولنگ لائن سے پریشر بہت حد تک کم ہوجائے گا۔
نسیم شاہ اور ابرار پاکستانی بولنگ کو مکمل کرتے ہیں اور اگر یہ دونوں بولر پاکستان کیلئے وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے تو مخالف ٹیم کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ان دونوں کی حالیہ فارم البتہ مداحوں میں تشویش پیدا کررہی ہے۔ حالیہ عرصے میں اگر کوئی ایک پاکستانی کھلاڑی ریکارڈ بکس میں ابھر کر سامنے آیا ہے تووہ سلمان علی آغا ہیں۔ سلمان علی آغا نے حالیہ میچز میں اپنی بیٹنگ سے متاثر کیا ہے۔ جنوبی افریقا کے خلاف 134 رنز کی اننگز ان کی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ وہ بولنگ میں بھی مفید ثابت ہو رہے ہیں۔
بابر اعظم، محمد رضوان، اور فخر زمان کی موجودگی میں ٹاپ آرڈر مستحکم ہے، جو ٹیم کو مضبوط آغاز فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، اور نسیم شاہ کی تیز رفتار بولنگ مخالف ٹیموں کے لیے چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ کھلاڑی پاکستان میں میچز کھیلنے کا تجربہ اور مقامی حالات سے واقفیت رکھتے ہیں جو ٹیم کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
پاکستان ٹیم کے مڈل اور لوئر آرڈر میں تجربہ کار فنشرز کی کمی بعض اوقات ٹیم کو مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ خوشدل شاہ اور فہیم اشرف سے جو توقعات تھیں وہ ابھی پوری نہیں ہوئی ہیں۔ کچھ کھلاڑیوں کی فٹنس کے مسائل واضح ہیں جو ٹیم کی کارکردگی پر منفی اثرڈال سکتے ہیں۔
سعود شکیل، طیب طاہر، کامران غلام اور حسنین سے بھی ٹیم کی بہت توقعات وابستہ ہیں۔ حالیہ دنوں میں وہ ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور انٹرنیشنل میچوں کا پریشر دیکھ چکے ہیں۔ مڈل اور لیٹ آرڈرمیں ان کی بیٹنگ اور حسنین کی جاندار باولنگ پاکستان کیلئے بہت فرق پیدا کر سکتی ہے
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 میں پاکستان کی ٹیم ایک اچھی بیٹنگ لائن اپ، مؤثر بولنگ اٹیک، اور ہوم گراؤنڈ کے ایڈوانٹیج کے ساتھ شرکت کر رہی ہے۔ اگر کھلاڑی اپنی فٹنس برقرار رکھیں اور مڈل آرڈر میں فنشنگ کی صلاحیتوں کو بہتر بنائیں تو ٹیم ٹورنامنٹ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔