Time 16 جون ، 2025
صحت و سائنس

بے خوابی کو آپ سے دور رکھنے والی بہترین اور آسان عادت

بے خوابی کو آپ سے دور رکھنے والی بہترین اور آسان عادت
اگر بے خوابی کا سامنا مسلسل ہو تو مختلف امراض کا خطرہ بڑھتا ہے / فائل فوٹو

نیند ہماری زندگی کا انتہائی اہم عمل ہے جو جسم اور ذہن دونوں کی صحت کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے۔

بے خوابی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو ہوتا ہے جس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور اکثر افراد کی نیند چند دن بعد ٹھیک ہو جاتی ہے۔

تاہم اگر بے خوابی کا سامنا مسلسل ہو تو مختلف امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

مگر آپ کی غذائی عادات اچھی نیند کے حصول میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

یونیورسٹی آف شکاگو میڈیسن اور کولمبیا یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پھلوں اور سبزیوں کے زیادہ استعمال سے اچھی نیند کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق دن بھر میں پھلوں اور سبزیوں کے زیادہ استعمال سے اس رات نیند زیادہ گہری ہوتی ہے۔

محققین نے بتایا کہ غذائی عادات نیند کو بہتر بنانے کا قدرتی اور آسان طریقہ ہے جس کے لیے زیادہ خرچہ بھی نہیں کرنا پڑتا۔

اس تحقیق میں نوجوان افراد کو شامل کیا گیا اور ان کی روزانہ کی غذائی عادات کا ڈیٹا ایک ایپ کے ذریعے اکٹھا کیا گیا جبکہ کلائی پر ٹریکر پہنا کر ان کی نیند کا جائزہ بھی لیا گیا۔

تحقیق کے مطابق جو افراد دن بھر میں پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ رات کو زیادہ گہری نیند سوتے ہیں اور عام طور پر ان کی آنکھ کھلتی نہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ پھلوں اور سبزیوں کے زیادہ استعمال سے نیند کا معیار 16 فیصد بہتر ہو جاتا ہے جو کہ بہت نمایاں فرق ہے اور ایسا 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ہوتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ابھی ہم نے اس کی وجہ دریافت نہیں کی تو اس حوالے سے مزید تحقیق میں دیکھا جائے گا کہ یہ فائدہ کیوں ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مگر موجودہ ڈیٹا سے یہ تو واضح ہے کہ لوگوں کو اپنی غذا میں پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے، جس سے طویل المعیاد بنیادوں پر نیند کا معیار اور دورانیہ بہتر ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ لوگ اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا غذا سے نیند کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے یا نہیں، تو ہمارا جواب ہے کہ ہاں ایسا ممکن ہے، طرز زندگی میں معمولی تبدیلیاں بھی نیند پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل سلیپ ہیلتھ میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :