10 اپریل ، 2013
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…امریکی جریدے ”فارن پالیسی “ کے مطابق کراچی میں بد امنیکاعفریت بے قابو ہو چکا ہے، حالات پستی کی نچلی سطحوں کو چھو رہے ہیں، انتخابی مہم کے دوران بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ،اغواء اور دیگر جرائم حالات کو مزید سنگین بنا سکتے ہیں، اشرافیہ خاندانوں کی نوجوان لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی، ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کیا گیا،پوش علاقوں کی خواتین نے خود حفاظتی اقدام کی خاطر تربیتی کلاسز لینا شروع کردی ،جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کہا کہ کراچی کی صورت حال خطرناک تناسب تک خراب ہو چکی ہے اگر اس پر فوری قابو نہ پایا گیا تو تشدد بے قابو ہو سکتے ہیں،تقریباً 5ہزار تاجروں اور بزنس مینوں نے اپنا کاروبار مکمل طور پر بند کردیا،نگران حکومت کراچی کے بحران کو حل کرنے کے قابل نہیں،محدود مدت کے لئے فوج بلانے کا متبادل راستہ ہے،جریدے نے کراچی کی صورت حال پر اپنے تفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستانی حکومت کی تاریخی جمہوری فتح کے باوجود18ملین کی آبادی کے شہرکراچی میں پرتشدد کارروائیاں باعث تشویش ہیں اور ان کارروائیوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔اس شہر میں عدم استحکام کے پھیلے احساس نے خراب اقتصادی صورت حال کو مزید ابتر کردیا ہے۔کراچی میں امن وامان کو قائم رکھنے میں حکومت اور سیکورٹی اداروں کی ناکامی ایک واضح یادہانی ہے ۔ انتخابات میں اس بات کا امکان ہے کہ پرتشدد واقعات میں اضافہ جاری رہے گا۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق2012میں کراچی میں 284 2افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔صرف72دنوں میں کراچی میں 500افراد بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ متاثرین میں پولیس اہلکار، غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں سے وابستہ افراد ، رینجرز جوان، وکلاء، صحافی اور دیگر شہری شامل ہیں۔حالیہ سالوں میں ملک بھر میں فرقہ وارانہ حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن کراچی نے اپنے مخصوص فرقہ وارانہ قتل اور نسلی جھگڑوں کی لہر دیکھی، تاہم عباس ٹاوٴن حملے نے کراچی پر سکتہ طاری کردیا۔عباس ٹاوٴن واقعے کے تین دن بعد کراچی کو صرف22منٹ میں مکمل بند کرادیا گیا،اس دوران سات افراد ہلاک کردیئے گئے لوگوں کو افراتفری میں گھروں تک محفوظ پہنچنے کے لالے پڑ گئے۔اس صورت حال میں ایک سیاسی جماعت نے عباس ٹاوٴن واقعے کے ذمہ داران کی گرفتاری تک ہڑتال کا اعلان کردیا۔ کراچی کے زیادہ تر شہریوں نے”غیر معینہ ہڑتال“ پر ناراضی کا اظہارکیا ۔شہریوں کوخدشہ تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے کراچی کی معیشت کو مزید نقصان ہوگا۔ڈیلی ویجز والوں کو ایسی ہڑتالیں شدید متاثر کرتی ہیں۔کراچی میں روز کا معمول ہے کہ کاروبار اور عوامی ذرائع نقل و حمل کو فوری طور پر بند کر دیاجاتا ہے ، اسپتالوں کو ہائی الرٹ رکھا جاتا ہے،بدقسمتی سے کراچی میں چوری ،ڈکیتی اور کار چھیننے کی کارروائیاں بھی روز کا معمول ہے۔اس سے کراچی کے حالات پستی کی نچلی سطحوں کو چھو رہے ہیں۔ایک ماہ قبل شاپنگ مال سے لڑکی کے اغوا کی کوشش سے پوش علاقے میں سیکورٹی آپریٹس کی خرابی نے مزید تشویش پیدا کردی۔سوشل میڈیا پر بدنام بلیک پریڈو کے بارے کافی افواہیں سرگرم رہیں کہ ڈیفنس، کلفٹن اور زم زما میں گن مینوں کے ساتھ سیاہ شیشوں کی اس بلیک پریڈو میں روزانہ دو لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔تاہم سرکاری سطح پر ایسی کوئی شکایت درج نہیں کی گئی۔یہ افواہیں بھی وسیع پیمانے پر پھیلی ہیں کہ اشرافیہخاندانوں کی نوجوان لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی،ان کی ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کیا گیا۔جریدہ لکھتا ہے کہ یہ افواہیں ہیں یا حقیقت ،لیکن پر تشدد واقعات اور جرائم کی معمولی وارداتوں سے کراچی کے شہری اپنی نقل و حرکت میں بہت زیادہ محتاط ہو چکے ہیں۔پوش علاقوں کے رہائشیوں نے اور خصوصاً خواتین نے اپنی حفاظت کے لئے تربیتی کلاسز لینا شروع کردی ہیں۔ حیرت کی بات نہیں، بہت سے شہری محسوس کرتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ،اغواء اور دیگر جرائم حالات کو مزید سنگین بنا سکتے ہیں۔ان پر تشدد صورت حال میں ایک مقامی اخبار کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کراچی کے69فی صد بندوق خریدنے کے حق میں ہیں۔پروین رحمان کا قتل،یا اسکول پر دستی بم حملے میں پرنسپل اور طالبہ کا قتل واضح کرتا ہے کہ سوات اور فاٹا کی صورت حال کراچی میں درپیش ہے۔ بہت سے شہری دعویٰ کرتے ہیں، پولیس او ر قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے کراچی میں تحفظ ملنا چاہیے لیکن اب اس شہر میں مجرموں اور عسکریت پسندوں نے کھیل کھیلنا شروع کردیا ہے۔ بڑھتے ہوئے سیکورٹی خدشات اور صحت مندانہ سرمایہ کار انہ ماحول کی عدم دستیابی نے کئی کاروباری افراد کو غیر ممالک میں کاروبار منتقل کرنے پر مجبور کردیا۔تقریباً 5ہزار تاجروں اور بزنس مینوں نے اپنا کاروبار مکمل طور پر بند کردیا ہے۔جس سے ملک کی اقتصادی صورت حال پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق 2008میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 5.41ارب ڈالر تھی لیکن پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت ان اعدادوشمار کے فروغ میں ناکام رہی۔2012میں ایف ڈی آئی صرف 820ملین ڈالر رہی اور پاکستانی روپے کی قدر 63فی صد کم ہوئی۔کراچی کے شہری عسکریت پسندوں اورمجرمانہ گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے رہے۔لیکن حکومت نے اس کی مخالفت کی ۔بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ پی پی پی کی حکومت نے فوج کو بلانے سے اس لیے انکار کردیا تھا کہ انتخابات سے قبل امن و امان کی صورت کو برقرار رکھنے میں ان کی نااہلیت ظاہر ہوتی۔عسکری ذرائع نے حال ہی میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کراچی کی بگڑتی صورت حال کا آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سخت نوٹس لیا ۔کراچی میں تشدد کی ایک وجہ نہیں بلکہ عسکریت پسندی، نسلی اور فرقہ وارانہ کشیدگی، لینڈ مافیا، گینگ اور چھوٹے موٹے جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے شہر مفلوج ہوگیا ہے۔کراچی میں سنگین صورت حال حکومتی مشینری اور اور قانون نافذ کرنے والوں کے احتساب کے متعلق فوری اصلاحات کے نفاذ میں قیادت کی عدم دلچسپی تھی۔پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والوں کی غیر موٴثرتربیت غیر فعالیت کی وجہ ہے اس کے ساتھ کچھ پولیس اہلکاروں پر مخصوص جماعتوں کے جرائم پیشہ ہونے کے الز امات ہیں اور اقربا پروری پر پیشہ ورانہ عہدوں پر من پسند افراد کی تعیناتی ،انٹیلی جنس اداروں کے درمیان مناسب رابطہ کاری کا فقدان نے بھی امن امان کی صورت حال کو اس نہج پر پہنچا دیا ۔کراچی میں بڑھتے تشدد نے مئی کے انتخابات کا آزادنہ ، منصفانہ اورشفاف انعقاد پر خدشات نے اضافہ کردیا ہے۔انتخابی مہم میں جھگڑوں سے خراب گورننس مزید مسئلہ بنے گی۔نگران حکومت اس بحران کو حل کرنے کے قابل نہیں۔صورت حال کو مستحکم کرنے کیلئے صرف متبادل راستہ محدود مدت کے لئے فوج کو بلانا دکھائی دیتا ہے جو انتخابات سے قبل تشدد کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں جمہوری تاریخ رقم ہوئی لیکن ایک عام شہری سوال کرتا ہے کہ اس جمہوریت کی خاطر ہمیں وسیع پیمانے پر تشدد اور جرائم ملے۔