پاکستان
15 اپریل ، 2013

امریکاکئی بارپاکستان کی داخلی سیاست میں شامل رہا ،امریکی جریدہ

 امریکاکئی بارپاکستان کی داخلی سیاست میں شامل رہا ،امریکی جریدہ

کراچی… محمد رفیق مانگٹ…امریکی جریدہ”فارن پالیسی “ لکھتا ہے کہ امریکاکئی بارپاکستان کی داخلی سیاست میں شامل رہا، امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا پاکستان کا دورہ نہ کرنا درست فیصلہ ہے،اگروہ یہ دورہ کرتے تواس سے تاثر ملتا کہ امریکا صدرزرداری اور پیپلز پارٹی کی حمایت کررہا ہے ۔کئی وجوہ پر امریکا کو بے نظیربھٹوکی شہادت کا ذمہ دار اور بعد کے حالات پر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے،اگر امریکا2006میں بے نظیر بھٹو کی حمایت کر سکتا ہے تو ایک سیکو لر اور امریکی جھکاوٴ کے حامل مشرف کے لئے کیوں نہیں۔مشرف وزارت خارجہ اور وائٹ ہاوٴس میں ملاقاتیں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اس میں ناکام رہے ۔جریدہ لکھتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے خطے کے دورے میں انتخابی عمل کی وجہ سے پاکستان کا دورہ نہیں کیا اور یہ جان کیری کا فیصلہ درست تھا۔امریکاکئی بارپاکستان کی داخلی سیاست میں شامل رہا ہے،اور یہ مسئلہ اس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔2006میں بے نظیر بھٹو اور اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے درمیان شراکت اقتدار میں امریکا نے بروکر کا کردار ادا کیا۔ فارمولے کے تحت بے نظیر الیکشن میں کامیاب اور وزیر اعظم بننے کے بعد مشرف کو صدر قبول کرنے کیلئے تیار تھی۔جب کہ عالمی دہشت گردی میں ہائی اسٹیک کی وجہ سے امریکی ثالثی کسی حد تک ضروری تھی،جس کا نتیجہ تباہ کن بھی ہوسکتا تھا۔اعلیٰ امریکی حکام اور غیر رسمی نمائندوں سے کئی ماہ کی خفیہ ملاقاتوں کے بعد بینظیر دبئی سے جلاوطنی ختم کرکے پاکستان لوٹی تو دس ہفتے کے بعد انہیں شہید کردیا گیا۔اس وقت سے کئی وجوہ پر امریکا کو ان کی شہادت اور بعد کے حالات کا مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے،ان سب میں آصف زرداری کا صدارتی انتخاب بھی ہے۔اگر امریکی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کرتے تو یہ لامحالہ اشارہ جاتا کہ امریکا زرداری اور پیپلز پارٹی کی حمایت کررہا ہے۔زرداری اور پی پی پی اس کو اپنی مایوس کن انتخابی امکانات میں استعمال کرتی لیکن امریکا نے ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کیا۔ پاکستانی سیاست دانوں کے امریکی حمایت حاصل کرنے کے مختلف طریقے کوئی نیا ڈھونگ نہیں۔ اگر امریکا2006میں بھٹو کی حمایت کر سکتا ہے تو ایک سیکو لر اور امریکی جھکاوٴ کے حامل مشرف کے لئے کیوں نہیں۔ اسکاٹ لینڈ کی مہنگی ترین شراب scotch سے کبھی کبھار لطف اندوز ہونے والے متنوع مزاج جنرل مشرف اب سیاست کی طرف آرہے ہیں۔ مشرف کو اس کی کوششوں کا کریڈٹ ملنا چاہیے،انہوں نے امریکی سیاسی حلقوں میں لابنگ کیلئے سخت محنت کی اور اپنے فلاڈفیا آفس سے باقاعدگی سے امریکی کانگریسی ارکان کے ساتھ ملاقاتوں کی خبریں اور تصاویر باقاعدگی سے جاری کرتے رہے۔کچھ لاپرواہی کے انداز میں ان کے دفتر نے فٹ بال میچ کے دوران امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے ساتھ مشرف کی تصویر کو جاری کیا، یہ ظاہر کیا گیا کہ ملاقات پہلے سے طے تھی۔نائب صدر کے دفتر نے فوری اس تصویر کی وضاحت جاری کی کہ یہ ایک اتفاقیہ ملاقات تھی جس میں کوئی اہم بات چیت نہیں ہوئی۔یہ حقیقت ہے کہ مشرف وزارت خارجہ اور وائٹ ہاوٴس میں ملاقاتیں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔اب مشرف پاکستان لوٹ چکا۔پاکستان میں امریکی سفیر رک اولسن کا کہنا تھا کہ مشرف کی واپسی کوئی اہم یا بڑا واقعہ نہیں ہے۔اس کے ساتھ حمایت کا کوئی بڑا معاہدہ نہیں ہوا۔وائیٹ ہاوٴس کے ترجمان نے بعد میں کہا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔اس سے قبل وزارت خارجہ کی ترجمان کہہ چکی تھی کہ پاکستانی سیاست میں ان کے لئے کوئی پسندیدہ یا منظور نظر نہیں،امریکا گیارہ مئی کے بعد منتخب ہونے والوں کے ساتھ کام کرے گا۔وزارت خارجہ کے حکام نے کہا کہ امریکا کسی کو بھی نہیں لے کر چلنا چاہتا کہ اس کے کہاں مفادات ہیں۔یہ واضح ہو چکا ہے کہ امریکا پاکستان کی داخلی سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا پاکستانی حکومت کے ساتھ مستحکم اور دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کا راستہ تلاش کرے گا۔2014تک امریکا پاکستان پر بہت زیادہ انحصار کرے گا۔

مزید خبریں :