24 دسمبر ، 2015
بغداد.......شوکت علی پیرزادہ .........اسلامک اسٹیٹ برائے عراق و شام یا آئی ایس آئی ایس کی جانب سے جون 2104میں خلافت کے اعلان کے بعدکچھ عرصہ تک تو داعش کا زور زیادہ تر عراق اور شام ہی تک رہا،مگر 2015کے دوران ، یہ تنظیم دنیا بھر میں ہونے والی دہشتگردی کے واقعات میں کسی نہ کسی شکل میں ملوث ہے۔
پیرس فٹبال کلب کا خونی واقعہ ہو یا پھر کیلیفورنیا کے سان برڈینوکے معذوروں کے بحالی مرکز میں فائرنگ کا واقعہ ہو،اس میں ملوث دہشتگردوں کا تعلق داعش سے بتایاجا تا ہے۔
تاہم اب جبکہ رواں سال اپنے اختتام کے قریب ہے تو گزشتہ بارہ ماہ کے دہشتگردی کے واقعات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عراق میں جنم لینے والی داعش نے پہلے اپنے قدم عراق کے سنی علاقوں میں جمائے اور بعد میں شامی خانہ جنگی کے نتیجے میں اس نے شام کا ایک وسیع رقبہ بھی اپنے زیرنگین کرلیا۔اور رواں سال کے دوران اس نے علاقوں پر قبضے کی پالیسی کی جگہ اپنی توجہ دور بیٹھے اپنے دشمنوں پر مرکوز کررکھی ہے ۔
برطانیہ کے ایک سابق عالمی کائونٹر ٹریرازم آپریشن کے سربراہ رچرڈبریٹ کا کہنا ہے کہ داعش اب ایک عالمی دہشتگرد تنظیم بن چکی ہے۔بریٹ جو کہ اب نیویارک میں کام کرنے والی ایک تھنک ٹینک سوفان گروپ کے نائب صدر ہیں ، کہتے ہیں کہ جو لوگ یا ممالک داعش کے حوالے سے ان دنوں کام کررہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس گروپ سے معاملات کرنا خاصا مشکل کام ہے۔عراقی یا شامی شہری اس تنظیم سے خوف کھاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ شام اور عراق میں مزید طیارے یا افواج کے بھجوانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا،اس تنظیم نے اپنے ایجنٹس ان ملکوں میں بھجوارکھے ہیں جہاں یہ حملہ کرتے ہیں۔بعض سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2015 کے دوران وہ ممالک جہاں داعش نے کارروائیاں کیں، وہاں کی سیکیورٹی ایجنسیاں بھی خوف میں مبتلا ہیں، گو کہ انھوں نے اچھے خاصے حفاظتی انتظامات کررکھے ہیں، تاہم پھربھی وہ خدشات کا شکار ہیں۔
دریں اثنا بروکنگز انسٹی ٹیوشن واشنگٹن کے بروس ریڈل کہتے ہیں کہ انھوں نے اب تک جتنے بھی یورپی ملکوں کے سیکورٹی حکام سے بات کی ہے وہ غیرملکی جنگجوئو کے مسئلے کی وجہ خائف ہیں۔سینکڑوں یورپین شہری شام اور عراق میں آئی ایس میں شامل ہورہے ہیں۔اور وہ ایسا براستہ ترکی شام اور یا عراق جاکر کرتے ہیں۔اس صورتحال میں چند روز قبل سعودی عرب نے 34ملکوں پر مشتمل ایک اتحاد قائم کیا ہے، تاکہ داعش کے خطرات سے نمٹا جاسکے۔
لیکن فرانس کے ایک سیکورٹی و عالمی امور کے ماہر پروفیسر یاں پیری فلیوکہتے ہیں کہ اس مربوط عالمی کوششوں کے باوجودداعش کے خطرات کم نہیں ہوئے ہیں۔پیرس اور کیلی فورنیا حملوں سے مغربی ملکوں میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ یہ گروپ کسی بھی وقت پھر حملہ آور ہوسکتا ہے ۔فرانس کو برطانیہ اور جرمنی کی مدد حاصل تھی مگر دوسرے یورپی ملکوں سے اس قسم کا تعاون نہیں ملا۔
پروفیسر فلیوکا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں امریکا اس خطرے سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بنارہا ہے۔جبکہ روس نے اس حوالے سے ایک معقول تعداد میں فوج اور اسلحہ شام پہنچا دیا ہے۔حالانکہ امریکا اور اسکے اتحادی روس پر یہ الزام لگارہے ہیں کہ وہ آئی ایس (داعش)سے لڑنے کے بجائے صدربشارالا اسد کے ماڈریٹ مخالفین یا پھر این جی اوز کو نشانہ بنارہا ہے۔