25 دسمبر ، 2015
واشنگٹن........شوکت اے پیرزادہ........شام میں مارچ 2011 سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے دمشق کے پڑوسیوں سمیت غیر ملکی طاقتیں کسی نہ کسی انداز میں اس صورتحال کے حوالے سے اقدامات کررہے ہیں ان میں سے بعض شام کی مدد کررہے ہیں تو کئی ممالک اسے اپنے مفادات کے مطابق استعمال کررہے ہیں۔
دو بڑی عالمی طاقتوں میں سے ایک امریکا شروع ہی سے اسد حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد کرتا رہا ہے،تاہم اب کچھ عرصے سے امریکا نے اپنی پالیسی میں کچھ تبدیلی کی ہے، اور یہ تبدیلی گزشتہ چند ما ہ میں دیکھنے میں آئی ہے۔بالخصوص روس کی جانب سے داعش اور دیگر بشارالاسد مخالف گروپوں کے خلاف فضائی حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ داعش سمیت بعض باغی گروپوں کی گرفت کمزور ہوئی ہے اور شامی حکومت کافی تیزی سے اپنے کھوئے ہوئے علاقوں کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے رہی ہے۔جس کے بعداوبامہ انتظامیہ نے خفیہ طورپر بشار الاسدکے نمائندوں سے مذاکرات کا آغاز کررکھا ہے۔
تاہم بعض امریکی اور عرب حکام کا کہنا ہے کہ اس قسم کے مذاکرات گزشتہ کئی برسوںسے جاری ہیں تاکہ شام میں قتل وغارت کو روکنے کے ساتھ ساتھ بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنے پر آمادہ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے پہلے تو امریکا نے کوشش کی تھی کہ کسی طرح شامی فوج میں پھوٹ پڑجائے اور وہ بغاوت کرکے بشار اسد کا ساتھ چھوڑدے ،تاہم اس سلسلے میں امریکا کو کامیابی نہ مل سکی ۔
جس کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے شام پر گزشتہ نصف صدی سے حکمرانی کرنے والے اسد خاندان سے خفیہ مذاکرات کا فیصلہ کیا۔لیکن ایران سے کیے گئے بیک چینل خفیہ مذاکرات کے برخلاف شام سے مذاکرات اتنے تواتر سے نہ ہوئے اور اسکا دائرہ کار بھی محدود رہا۔اور اس حوالے سے میڈیا تک اطلاعات بھی نہ باہر نہ آسکی۔اس حوالے سے اب اوبامہ انتظامیہ کے بعض اہلکاروں کا کہنا ہے کہ بات چیت بڑے فوکس اور خاص معاملات پر ہوئے ہیں ۔
اس دوران دونوں حکومتوں کے بعض اہم رہنمائوںمیں بھی بات چیت ہوئی اور دونوں کے درمیان موجود رابطہ کار یعنی روس اور ایران کے ذریعے بھی پیغامات کا تبادلہ ہوا۔اس دوران شامی صدر نے کئی بار امریکیوں کو اس بات کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے انکا ساتھ دے۔
2010سے2014تک شام میں امریکا کے سفیر رہنے والے رابرٹ اسٹیفن فورڈ کہتے ہیں کہ بشار الاسد انتظامیہ کافی چالاک اور سیاسی طور پر متحرک ہیں انھیں آسانی سے کسی بھی اقدام پر راضی کرنا خاصا مشکل امر ہے۔ہمیں 2012کے وسط تک یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ باغیوں کے ذریعے بشار حکومت کو تبدیل کرنا کافی مشکل ہوگا۔اس موقع پر اوبامہ انتظامیہ نے اسد حکومت کو وارننگ بھی دی کہ وہ جنگ کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہ کرے۔تاہم اسکے باوجود کیمیائی حملوں میں کافی لوگ مارے گئے۔
اس دوران بات چیت کی ضرورت اس لیے بھی محسو س کی گئی کیونکہ وہاں پر کچھ امریکیوں کو اغوا کیا گیا۔اس دوران دو جانب سے مختلف اقدامات کیے گیے۔اب جبکہ روس بھی براہ راست اس معاملے میں داخل ہوچکا ہے۔تو امریکا یہ سمجھتا ہے کہ آیا اسد حکومت پر دبائو بڑھایا جائے یا پھر داعش سے پہلے نمٹا جائے۔