27 دسمبر ، 2015
واشنگٹن ........عراق اور شام میں برسرپیکار دہشتگرد گروپ داعش نے ماضی میں ایک غیراعلانیہ فتوے مِیں انسانی اعضاء کی پیوند کاری کی اجازت دی تھی اور کہا تھا کہ یرغمال بنائے گئے غیرمسلموںکے اعضاء ایک مسلمان کو اس کی جان بچانے کے لیے لگائے جاسکتے ہیں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق داعش کے مفتیوں نے 31 جنوری 2015ء کو ایک فتوے میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ کیا ایک زندہ یرغمالی کے اعضاء ایک مسلمان کی جان بچانے کے لیے لینے کی اجازت ہے؟برطانوی خبررساں ادارے نے اس فتوے کو ملاحظہ کرنے کی اطلاع دی ہے لیکن کہا ہے کہ وہ اس کی تصدیق نہیں کرسکتی ہے۔
امریکی اسپیشل فورسز نے شام کے مشرقی علاقے میں مئی میں ایک کارروائی کے دوران یہ تمام دستاویز اور کمپیوٹرز ہارڈ ڈرائیوز میں موجود ڈیٹاقبضے میں لیا تھا۔ایک دستاویز کے مطابق داعش کی فتویٰ کمیٹی نے مذکورہ سوال کے جواب میں کہا تھا کہ کسی کافر کی زندگی اور اعضاقابل احترام نہیں اور انھیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
امریکی حکومت کے ترجمے کے مطابق فتویٰ نمبر 68 میں کہا گیا ہے کہ اگر اعضاء نکالنے سے یرغمالی کی جان چلی بھی جاتی ہے تو اس صورت میں بھی اعضاء نکالنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔لیکن اس دستاویز سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ داعش انسانی اعضاء کی پیوند کاری یا ان کی اسمگلنگ میں ملوّث تھے۔البتہ صرف پیوند کاری کی فتوے کی شکل میں اجازت دی گئی ہے۔
امریکی اسپیشل فورسز کی چھاپہ مار کارروائی میں داعش کا مالی امور کا انچارج ابو سیاف مارا گیا تھا اور اس کی بیوی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ابو سیاف ،تیونسی تھا اور اس کا حقیقی نام فتحی بن عون بن جلدی مراد التونسی تھا۔امریکا نے ان دستاویز میں سے چند ایک کا صرف اپنے اتحادیوں کے ساتھ تبادلہ کیا ہے اور میڈیا کے لیے کوئی دستاویز جاری نہیں کی ہے۔
تاہم قبل ازیں عراقی حکومت نے داعش پر شمالی شہر موصل میں انسانی اعضاءکی پیوند کاری اور انھیں اسمگل کرنے کا الزام عاید کیا تھا۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ داعش کی دستاویزات سے اس کے تنظیمی ڈھانچے ،فنڈز جمع کرنے اور اس کی پیروکاروں کے لیے خفیہ ہدایات اور قوانین کے بارے میں پتا چلا تھا۔