06 مارچ ، 2016
کراچی…مدیحہ بتول…’کراچی ایٹ فیسٹیول‘ کا دسترخوان اٹھا تو کراچی کے’ چٹوروں‘ کی دوڑاب چائے کی چسکیاں لینے ’ٹی فیسٹیول ‘کی طرف ہو گئی۔فیسٹیول کراچی کے فریئرہال میں لگا ہے ۔ یہاں ملک کے مختلف علاقوں ، مختلف اقسام اور ایک سے بڑھ کر ایک ذائقے دار چائے کے مزے اٹھائے جارہے ہیں خاص کر ’ڈھابے کی چائے‘ کے چرچے توسب کی زبان پر ہیں ۔ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک کی چائے کامزہ بھی فیسٹیول کی جان بنا ہوا ہے۔
پچھلے دو روز سے کراچی کے شہری ہاتھوں میں چائے کے دھواں نکلتے کپ لے کر ایک دوسرے سے چائے کے فوائد پر تبادلہ خیال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس تین روزہ ٹی فیسٹیول کومختلف ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور برانڈز کے اشتراک سے بھر پور انداز میں سجایا گیا ہے۔
’کشمیری‘،’ پشاوری‘ اور’ کوئٹہ‘ کی ’ کوئلہ چائے‘ سے شہری خوب لطف اندوزہورہے ہیں۔الائچی ،دارچینی ،ادرک اورپودینے کی چائے کے علاوہ ’دودھ قہوہ چائے‘ سمیت پاکستان کے دیگر ذائقوں والی چائے بھی یہاں آئے مہمانوں خوب خوب لبھارہی ہے۔
ادھر دنیا کے مختلف ممالک کی روایتی چائے بھی فیسٹیول کو بھی منفردبنا رہی ہے ۔ان میں سر فہرست ’ساوٴتھ انڈیا‘ کی’ مصالحہ چائے‘ ہے جو وہاں عام طور پرالائچی،لانگ اور دار چینی ڈال کر تیار کی جاتی ہے۔ساتھ ہی جاپان کی’ چاول چائے‘ کا بھی مزہ چکھا جا رہا ہے۔۔۔ارے ارے یہ کوئی کھیر جیسی کوئی چائے نہیں بلکہ اس میں صرف چاولوں کا ارومہ ڈالا جاتا ہے۔۔۔اسی لئے اسے چاول چائے کہا جاتا ہے۔
’ترکی‘،’ایرانی‘ اور’ عربی چائے‘ کے علاوہ ’انگلش بریک فاسٹ ٹی‘ بھی فیسٹیول میں رنگ جمانے آئی ہے جو بغیر دودھ کے تیار کی جاتی ہے۔اس چائے کے لیے خاص پتوں کا استعمال کر کے بھی دنیا کے دوسرے ممالک کی چائے تیار کی جارہی ہے۔
اندون سندھ سے آئے خاص مہمانوں نے بھی فیسٹیول کو زینت بخشی ہوئی ہے اور اپنے ساتھ اپنے علاقے’ عمر کوٹ‘ کے ذائقے بھی ساتھ لائے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ تھرپارکر سے آئے وہاں کے روایتی لباس میں ملبوس گلوکاروں نے لوک گیت گا کرشہریوں کواپنا دیوانہ بنایا ہوا ہے۔
پاکستان میں روایت ہے کہ جب مہمانوں کو چائے پہ بلایا جاتا ہے تو اس کے ساتھ’ لوازمات‘ بھی ہوتے ہیں۔اتنا بڑا ٹی فیسٹیول ہو اور ساتھ کھانے پینے کی چیزیں نہ ہوں ،یہ کیسے ممکن ہے؟
پاکستان کے معروف شیف کی ریسیپی سے تیار کردہ چکن کھوسے،آلو قیمہ کٹلس،بمبئے چاٹ ،ون ٹوون،چکن اور بیف سموسوں کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کی خاص ریسیپی سے بنے گول گپے اور راجستھانی کھٹے آلو بھی منہ میں پانی لانے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
ساتھ میں لگے اسٹال میں پوری ،کچوری اور حلیم پہ بھی شہریوں کی رال ٹپکتی محسوس کی جاسکتی ہے۔
ٹھیلوں پر ’چاٹ دہی بڑے ‘تھے تو’ بھٹے والے‘ نے بھی اپنا ٹھیلا لا کھڑا کیا۔جاتے جاتے ”شادی بیاہ کی تقریبات کے لیے ہم سے رابطہ کریں “کے بینرپر بھی نظر ضرور پڑے گی۔
ملکی معیشت کے اعتبار سے دیکھیں تو ایسے فیسٹیول شہر کے لئے تو انوکھے ، دلچسپ ہیں ہی ۔۔ ساتھ ساتھ ’بڑی بڑی بزنس ڈیلز‘ کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔