03 جنوری ، 2017
زرغون شاہ...قانون کے رکھوالے جج کے گھر سے زخمی حالت میں برآمد کم سن طیبہ کوبے حس والدین نے چند روپوں کے عوض رہن رکھا، ان ملکی اور عالمی قوانین کی دھجیاں بھی اڑا ئی گئیں جو کم عمر بچوں کے حقوق کے تحفظ کے امین ہیں۔
عمر کے دسویں سال ہی قلم کی جگہ ہاتھ میں جھاڑوتھما دی گئی،کتابوں کی بجائے گندے برتن کھنگالنے پڑے، آنگن صاف کرنے کے لیےملا مگر کھیلنے کو نہیں ، کمسن طیبہ کو اپنے حقوق کا تو کچھ علم نہیں، لیکن وہ یہ جانتی ہے کہ اس پہ ظلم کے پہاڑ کس نے توڑے،والدین نے اپنا قرض اتارنے کو بیٹی رہن رکھ دی۔
دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ کے ہاتھ جلائے گئے، چائے کی گرم ڈوئی مار کے آنکھ زخمی کی گئی، والدین نے چند روپے لے کر صلح کر لی اور ملزمان کو فی سبیل اللہ معاف بھی کر دیا، مگر سوال یہ ہے کہ ملکی اور عالمی قوانین کس مرض کی دوا ہیں؟
آئین کے آرٹیکل 3،25 اور 37کے تحت مملکت پاکستان، استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ یقینی بنائے گی، پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے بچوں لیے تعلیم لازمی ہو گی اور مفت بھی، انتظام ریاست کرے گی۔
ریاست یقینی بنائے گی کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے کام نہ لیے جائیں، جو ان کی عمر یا جنس کے لیے مناسب نہ ہوں۔
اس کے علاوہ درجنوں ملکی و عالمی قوانین 14سال سے کم عمر بچوں سے مشقت لینے کی ممانعت اور خلاف ورزی کرنے والوں کی سزائیں تجویز کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اعلیٰ عدالتیں، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں یا سماجی تنظیمیں طیبہ کے حقوق کی پامالی پر حرکت میں آئیں گی؟