06 جولائی ، 2012
اسلام آباد… قومی اسمبلی میں دہری شہریت اور توہین عدالت قوانین میں ترامیم کے بل پیش کئے جائیں گے جس کے باعث ایوان میں گرماگرمی کا امکان ہے۔ جیونیوز کو حاصل ہونے والے دہری شہریت کے قانونی مسودے میں کہا گیا ہے کہ دہری شہریت کیلئے آئین کے آرٹیکل 63 ون سی میں ترمیم کی جائے گی، مسودہ میں کہا گیا ہے کہ بل کا مسودہ اوورسیز کی وزارت نے تیار کیا جبکہ وزارت قانون نے کابینہ میں پیش کرکے منظورکرایا۔ مسودہ میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 ون سی کے علاوہ آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106کو ڈراپ کردیا جائیگا اور بائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد دہری شہریت کا نیا قانون 24 ستمبر1972 سے لاگو ہوگا۔ مسودہ میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون 1951 کے پاکستان سٹیزن ایکٹ 1951 کے سیکشن 14 کے سب سیکشن 3 کو بھی تبدیل کردے گا، مسودہ میں جواز پیش کیا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے کی ڈیمانڈ پرآئینی ترمیم کی جارہی ہے،بیرون ملک پاکستانی اپنے ملک میں ہونے والے واقعات پرشدید تشویش رکھتے ہیں اور قومی مفاد میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، مسودہ میں کہا گیا ہے کہ کئی ممالک دہری شہریت کی اجازت دیتے ہیں،مسودہ قانون میں جواز پیش کیا گیا ہے کہ چونکہ آئین کا موجودہ آرٹیکل 60 ون سی دہری شہریت رکھنے والوں کو پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے سے روکتا ہے اورپاکستان کے امریکا، برطانیہ سمیت 16 ممالک کے ساتھ دہری شہریت کا معاہدہ پہلے سے موجود ہے، لہذا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے کیلئے نئی آئینی ترمیم لانا ضروری ہوچکا ہے۔ توقع کی جارہی ہے حکومت وفاقی کابینہ کے منظور کردہ 22 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کو آج سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کریگی تاہم اس کیلئے اس آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت یعنی 228 ارکان کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں اکثریت حاصل ہے اور وہ مولانا فضل الرحمن کو بھی منالیں گے، تاہم اس غیراعلانیہ مسودہ قانون سے حکومت کے اپنے کئی اتحادی جس میں اے این پی بھی شامل ہے، نابلد ہیں اور انہیں کابینہ کے اجلاس میں معلوم ہوا کہ حکومت 22 آئینی ترمیم کے ذریعے بعض اپنے انتہائی اہم وزراء و مشیروں کو تحفظ دینے کا منصوبہ بناچکی ہے کیونکہ اس آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ میں دائر دہری شہریت کی درخواستیں خود ہی کالعدم ہوجائیں گی۔اس کے علاوہ وفاقی کابینہ پہلے ہی توہین عدالت کے نئے قانون کے مسودے کی منظوری دے چکی ہے جس کے تحت وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزرا کے خلاف سرکاری امور نمٹانے سے متعلق توہین عدالت کے تحت کارروائی نہیں ہو سکے گی۔