06 جولائی ، 2012
کراچی…محمد رفیق مانگٹ…امریکی اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ کا کہنا ہے پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی بحرانوں نے پھر فوجی حکمرانی کی پرانی یادوں کو تازہ کردیااور اکثر اس حکومت سے نالاں لوگ جمہوریت سے مایوس نظر آتے ہیں ،اور فوج کی راہوں کو دیکھتے ہیں۔اخبار نے کچھ مایوس پاکستانیوں کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ جمہوریت سے انہیں کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے نو سالہ دورحکومت کو یاد کرتے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے دور میں رشتہ دار خوشحال اور اقتصادی ترقی کی شرح بہتر تھی ،جنرل محمد ضیاء الحق کا دور بھی مثبت تھا۔فوجی گورننس میں اچھے اور بہتر منتظم ہوتے ہیں۔اخبار کے مطابق یقینی طور پر پاکستان کی 64سالہ تاریخ میں فوجی حکومت کے لئے لوگوں کی یہ خواہشات نئی نہیں۔ فوج عام طور پر عوامی حمایت سے ہی تین بار مارشل لاء لگا چکی ہے۔عدلیہ جو پہلے فوجی حکومتوں کو آئینی جواز فراہم کیا کرتی تھی اب وہ کرپشن سے نبردآزما ہے۔وہ انتظامی اور فوجی بد اعمالیوں کی تحقیق کر رہی ہے۔کچھ ماہرین چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ملک کی سب سے طاقتور شخصیت کہتے ہیں کچھ ناقدین قانون کی حکمرانی کے نام پر اسے عدالتی بغاوت کا الزام لگاتے ہیں۔ان کی عدالت نے گزشتہ ماہ طویل سرونگ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو احکامات کی پیروی سے انکار پر حکومت سے باہر نکال دیا اور یہی بات ان کے جانشین کے لئے بھی خطرہ ہے۔عدلیہ، انتظامیہ اور کسی حد تک فوج کے درمیان طاقت اور اختیارات کی جدوجہد نے ایک ایسے وقت پر ملک کوغیر مستحکم ہونے کے خطرے سے دوچار کردیا جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوئے۔ اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت میں جتنی بھی خامیاں ہوں لیکن اتحادی حکومت نے کسی بغاوت، بڑے رہنما کے قتل یا پھانسی دئیے بغیر ساڑھے چار سال پورے کر لئے اور ملکی تاریخ میں طویل سویلین حکومت بننے کے راستے پر ہے۔اخبار کے مطابق یہ کوئی نہیں جانتا کہ لولی لنگڑی جمہوریت سے حقیقی جمہوریت تک آنے میں اس ملک کو کتنا عرصہ لگے گا۔پاکستان عسکریت پسندی کی جنگ کے علاوہ معاشی ابتری کے ہوتے ہوئے آئینی بحران کا بھی شکار ہو رہا ہے،بجلی کی بندش میں ہونے والے ملک بھر میں احتجاجات پر تشدد فسادات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔اخبار نے ایک سیاسی تجزیہ کار کے حوالے سے لکھا کہ جمہوریت نے ملک کو اندھیروں میں لا کھڑا کیا، مشرف کے دور کے اختتام کے بعد دودھ کی قیمت میں تین گنا اور بجلی کے نرخوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔جمہوریت نے خراب طر زحکمرانی اور کرپشن کی حوصلہ افزائی کی جس سے مزید غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔اخبار نے امریکی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف 15 فیصد پاکستانیوں کا صدر آصف علی زرداری کے متعلق مثبت نقطہ نظر ہے جب کہ 39 فیصد اب بھی پرویز مشرف کو بہتر سمجھتے ہیں۔فوج کے متعلق پاکستانی عوام اپنی کھل کر حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔77فی صد فوج کے اچھے اثر رسوخ کا برملا اظہار کرتے ہیں، طاقتور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی گزشتہ مارچ اور اپریل کے سروے کی نسبت زیادہ حمایت سامنے آئی۔اخبار کے مطابق کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے پاکستان میں فوجی بغاوت کے بہت کم امکانات ہیں۔حکومت خوداپنی نااہلی کو تشکر کے طور پر لیتی ہے۔ اقتصادی صورتحال اتنی سنگین ہے کہ فوج اقتصادی مسائل کی ناکامی اپنے سر نہیں لینا چاہتی۔ اخبار نے واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں پاکستانی امور کے ماہر کے حوالے سے کہاکہ فوج ان مسائل سے نکلنے میں ناکامی کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لینا چاہتی اور یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ فوج کے پاس حکومت پر کنٹرول کے جواز نہیں ،فوج کا ان چیزوں پر اب بھی کنٹرول ہے جن کا وہ اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے ۔ابھی بھی ملکی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی ویٹوپاور فوج کے پاس ہے۔اخبار کے مطابق کئی برسوں سے امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان میں کرپشن کے خاتمے، پارلیمانی بہتری، شہری اور خواتین کے حقوق جیسی اصلاحات پر لاکھوں خرچ کیے لیکن اصلاحات کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نازک آئینی حکومت کو مجاز، صاف قیادت فراہم کرنے میں ابھی کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔