07 جون ، 2017
پاناما جے آئی ٹی نے 30دن میں کیا شواہد اکٹھے کیے؟ رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی،ججز نے رپورٹ پڑھنے کے بعد سربمہر کر کے رجسٹرار آفس میں جمع کرا دی۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ تحقیقات درست سمت میں جا رہی ہیں، جے آئی ٹی کے لیے مقررہ مدت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
پاناما جے آئی ٹی کی 30دن کی کارروائی رپورٹ شواہد کےساتھ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا ٹیم کے ارکان کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچے۔
انہوں نے خود لال رنگ کا بیگ اٹھا رکھا تھا جب کہ مے فیئر فلیٹس سے متعلق تحقیقاتی شواہد کی رپورٹس دو کالے بیگز میں بھر کر لائی گئیں۔
سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کے تمام ارکان کو ایک ساتھ دوسری صف میں بٹھایا گیا،واجد ضیا ِ نے عدالتی عملے کے ذریعےسیل بند چمڑے کے کالے بیگز کھولے اور سربمہر خاکی لفافوں سے مجلد رپورٹس نکال کر ججز کو پڑھنے کے لیے پیش کیں۔
ججز نے دس منٹ تک رپورٹس پڑھیں، باہمی مشورے کےبعد جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی کو جو مسائل اور مشکلات ہیں ان کے حوالے سے الگ سے درخواست داخل کریں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ یہ حصہ سیکرٹ نہیں، اس سے پہلے حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ حسین نواز کی جے آئی ٹی میں تفتیش کے دوران لی گئی تصویر کے حوالے سے درخواست داخل کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ تفتیش کے دوران ویڈیو ریکارڈنگ کو محرم علی کیس میں کالعدم قرار دے چکی ہے،ویڈیو ریکارڈنگ جے آئی ٹی کے پاس تھی، حسین نواز کی تصویر لیک کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جائے۔
جسٹس اعجاز الحسن کا کہنا تھا کہ یہ ریکارڈڈ کلپ کی تصویر ہے، جسٹس عظمت سعید بولے تصویر پر وقت اور تاریخ بھی نظر آرہی ہے ، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اس پر جے آئی ٹی کا مؤقف لے لیتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے حسین نواز کی تفتیش کے دوران لیک ہونے والی تصویر پر جے آئی ٹی کا مؤقف اور جے آئی ٹی کو درپیش مشکلات کی سماعت اوپن کورٹ میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ سماعت پیر کو کی جائے گی۔