07 نومبر ، 2017
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کیے جانے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
23 صفحات پر مشتمل جسٹس اعجاز افضل کی جانب سے تحریر کیے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کو پاناما کیس کی سماعت کے دوران افسوس اور مایوسی ہوئی جب نواز شریف نے عدالت کے سوالات کے دیانت دارانہ جوابات نہ دیے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف نے عدالت کو کبھی سچ نہ بتایا ، عدلیہ سمیت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی، جھوٹ بولنے سے بہتر تھا کہ باعزت طور پر عہدے سے مستعفی ہوجاتے۔
تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے ناوصول کردہ تنخواہ مستقبل کے لیے نہیں بلکہ ماضی کے ساڑھے 6 سال کی تھی، کیا سپریم کورٹ اقامہ کی بنیاد پر بنائے جانے والے اثاثے سے صرف اس لیے آنکھیں بند کر لیتی کہ درخواست گزار وزیر اعظم پاکستان ہے، ملک کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے اعلیٰ ترین اقدار کی توقع کی جاتی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر قسمت نے ان کے سر پر حکمرانی کا تاج رکھا تھا تو انہیں مثالی اقدار کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، وزیر اعظم ملکی اور بین الاقوامی طور پر قوم کی نمائندگی کرتا ہے کیا ایک اثاثے سے انکار اور 2006میں ایسے فونٹ میں لکھی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جو 2007میں رائج ہوا ان کے عہدے اور وقار کے برخلاف نہیں ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف نے زبانی یا تحریری طور پر کبھی یہ نہیں کہا کہ نا وصول کردہ تنخواہ ان کا اثاثہ نہیں اور نہ ہی 2006 سے 2013 تک جمع ہونے والی تنخواہ کو لینے سے زبانی یا تحریری انکار کیا لہذا یہ دلیل کہ اگر یہ تنخواہ وصول نہ کی جائے تو وہ اثاثہ نہیں ہوتا درست نہیں۔
پانامہ فیصلے پر نواز شریف، حسن، حسین، مریم نواز اور اسحاق ڈار کی نظر ثانی درخواستوں کو مسترد کرنے کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بلیک لا ء ڈکشنری کی اثاثے سے متعلق تعریف پر درست انحصار کیا، ایک لمحے کے لیے اگر بلیک لاء ڈکشنری کی تعریف پر انحصار نہ بھی کیا جائے تو تنخواہ ہر طرح سے ان کا اثاثہ ہے۔
سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی نظرثانی درخواستیں مسترد کرنے کے تفصیلی فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 184تین کے تحت رکن پارلیمنٹ کو نا اہل قرار دینے کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق احتساب عدالت جے آئی ٹی کی شہادتوں کو قانون شہادت پر پرکھنے میں آزاد ہے، عدالت نے ایسی کوئی آبزرویشن نہیں دی جس سے احتساب عدالت متاثر ہو۔
عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا کہ سپریم کورٹ محمود اختر نقوی کیس میں دوہری شہریت چھپانے والےاور غلط بیانی کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کونا اہل قرار دے چکی ہے۔ اسی طرح صادق علی میمن بنام رٹرنگ آفیسر میں بھی شہادت رکارڈ نہیں کی گئی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کے وکلاء کی یہ دلیل کہ سپریم کورٹ نیب کو ریفرنس داخل کرنے کے لیے ہدایت دینے کا اختیار نہیں رکھتی اس طرح سپریم کورٹ چیر مین نیب کا اختیار سنبھال لے گی پر عدالت اپنے 20اپریل کے تفصیلی فیصلے میں وجوہات بیان کر چکی ہے ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کی آبزرویشن عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں احتساب عدالت شہادتوں کو قانون شہادت پر ہی پرکھ کر فیصلہ دے گی، نگران جج سے اور چھ ماہ کی مدت کا تعین کرنے سے درخواست گذار کا کوئی حق متاثر نہیں ہوتا۔
جے آئی ٹی پر اعتراض کے حوالے سے عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ سماعت کے دوران نیب ،آئی بی ، ایس ای سی پی ،ایف بی آر اور نیشنل بینک میں بیٹھےقریبی ساتھیوں نے جو کیا وہ سب کے سامنے ہے عدالت جاگتے ذہن اور کھلی آنکھوں سے معاملات ان ہی کے قریبی ساتھیوں کے ہاتھ میں نہیں دے سکتی تھی۔ نگران جج کی تقرری سے ٹرائل متاثر نہیں ہوگا نگران جج کی تعیناتی کا مقصد مقدمے کا بغیر کسی تعطل مکمل کرنا ہے۔
فیصلے میں ایک شعر کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
ادھر ا ُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز نے ردعمل میں سوشل میڈیا پر بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون اور انصاف بھی شرمندہ ہیں، مظلوم نوازشریف نہیں، انصاف خود ہے۔
ٹوئٹر میں اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ نوازشریف سے انتقام لینے کے لیے اداروں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہی مریم ہے جس کا ذکر پہلے فیصلے میں نہیں آیا، اب انتقام لیاجا رہاہے کیونکہ نا انصافی پر بات کی ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ شدید دباؤ پر ہی آسکتا ہے، دوسری صورت میں انصاف کی بدلی شکل ناقابل تصورہے، یہاں بیٹےسے تنخواہ اثاثہ ہے، یہ انصاف کی کیا تضحیک ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ 28 جولائی کو سنایا تھا جس میں نوازشریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیا گیا۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بینچ کے پانچوں ججوں نے نوازشریف کو نااہل قرار دیا، نوازشریف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف صادق اور امین نہیں رہے لہٰذا صدر مملکت نئے وزیراعظم کے انتخاب کا اقدام کریں۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو حکم دیاکہ وہ فوری طور پر وزیراعظم کی نااہلی کا نوٹی فکیشن جاری کرے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے نوازشریف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا بھی حکم دیا ہے جب کہ شریف خاندان کے تمام کیسز نیب میں بھجوانے کا حکم دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔