پاکستان

جہانگیر ترین کے ٹرسٹ پر ان کے بچوں کا کنٹرول بہت کم ہے

اسلام آباد/ لندن: سوئٹزرلینڈاوربرطانیہ کےٹرسٹ کے 3ماہرین نے جہانگیرترین کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپنی نااہلی سے متعلق مقدمے میں پیش کردہ 38صفحات کی ٹرسٹ ڈیڈ کاتجزیہ کرنے کے بعد تصدیق کی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین کاآف شور ٹرسٹ ایک سیٹلر ڈائیریکٹڈ /کنٹرولڈ ٹرسٹ ہے جس میں ٹرسٹی کو بہت کم کنٹرول ہے، اور ان کے بچے 150 سال یا جہانگیر ترین کی وفات کے بعد فائدہ اٹھاسکیں گے۔

جہانگیر ترین نے تردید کی ہے کہ وہ نیوبری برطانیہ میں 7ملین پونڈ مالیت کے ہائیڈ ہاؤس کے مالک ہیں، اور یہ موقف اختیار کیاہے کہ جہانگیر ترین کے شائنی ویو لمیٹیڈ بی وی آئی آف شور کمپنی کی جانب سے قائم کردہ ٹرسٹ کے ذریعے ان کے بچے اس کے مالک ہیں۔

لیکن تازہ ترین فارنزک تجزیئے سے ثابت ہوتاہے کہ ٹرسٹ کے ذریعے جہانگیر ترین ہی اس کے اصل مالک ہیں جس پر نہ صرف یہ کہ ان کے بچوں کو مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہے بلکہ ٹرسٹی بھی بے اختیار ہیں جب کہ مکمل کنٹرول اور ملکیت ترین کے پاس ہے۔

انہوں نے پاکستانی عدالتوں میں اس حقیقت سے انکار کیاہے، پس منظر میں انٹرویو میں ماہرین نے آکسفورڈ کے نزدیک نیوبری یں 7ملین پونڈ مالیت کے ہائیڈ ہاؤس سے متعلق ٹرسٹ کاباریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد رائے دی ہے کہ سوئس فنانشیل مارکیٹ سپروائزری اتھارٹی کے ریگولیٹڈ سوئس ٹرسٹ ایڈمنسٹریٹرز برطانیہ میں ٹرسٹ مینجمنٹ سروسز فراہم نہیں کرسکتی جیسا کہ ترین کے وکلا نے عدالت میں بتایا ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ پر لندن میں دستخط کئے گئے ہیں۔

ترین کی ٹرسٹ ڈیڈ سے صاف ظاہرہوتاہے کہ اس پر جنیوا میں دستخط کئے گئے جس سے سوئس اکاؤنٹس کے درمیان ربط پر سوال پیداہوتے ہیں۔

ماہرین اس پر متفق ہیں کہ ترین کاآف شور ٹرسٹ شرمناک ٹرسٹ ہے، جس میں ٹرسٹیز کو کم از کم کنٹرول ہوگا اور شیڈول تھرڈ اور فورتھ سے ظاہرہوتاہے کہ ترین کے بچے ترین کی وفات یا 150سال بعد اس کے بینی فشری بن سکیں گے۔

انہوں نے وضاحت کی ہے کہ برطانیہ میں ایک آف شور ٹرسٹ کابنیادی مقصدڈومیسائل نہ رکھنے والے ترین جیسے اعلیٰ ترین افراد کیلئے تھا۔ یہ کسی شخص (یاگروپ) کی جانب سے جو ٹرسٹی اور ایک خاص فرد یاگروپ کے سیٹلر کے درمیان ایک انتظام تھا جس کی شقات کے تحت ایک واجب التعمیل قانونی فورم تھاجسے ڈیڈ آف ٹرسٹ کانام دیاگیا۔

ٹرسٹی ایچ ایس بی سی گیرزیلر ٹرسٹ کمپنی، جنیوا ہے جس نے ٹرسٹ قائم کیا، موجودہ ٹرسٹی ایس ایف جی ویلتھ سالوشنز،جرسی ہیں، ترین کی زندگی میں بینی فشریز میں جناب اور بیگم جہانگیر ترین ہیں اور ان کی وفات کے بعد ان شریک حیات اور بچے ہیں، قانونی طورپر ٹرسٹ ریزیڈنسی بہت نازک تصور ہے، اور سیٹلمنٹ کی ٹرسٹی سوئٹزرلینڈکی رہائشی ایک ٹرسٹ کمپنی ہے۔

لیکن یہ ٹرسٹ ہرمیجسٹی ریونیو اور کسٹمز کو برطانیہ کا غیررہائشی تجویز کیاگیاہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس میں سیٹلر (جناب ترین) اور ٹرسٹیز ایچ ایس بی سی گیرزیلر اوربینی فشریز (جناب ترین اوربیگم ترین) پر سنگین ٹیکس الجھاؤ موجود ہے۔ فارنزک تجزیئے سے ظاہر ہوتاہے کہ ٹرسٹ کا بینی فیشیل مالک کون ہے اور کون ہوسکتاہے؟۔

ٹرسٹ کیلئے منی لانڈرنگ گائیڈنس کے مطابق ایچ ایم آر سی رولز کے مطابق ٹرسٹ کے بینی فیشیل مالکان ہیں:۔ کوئی بھی فردجوٹرسٹ کی پراپرٹی کی مالیت کی کم ازکم 25 فیصد مفادات کامالک ہو، افراد جن کااصل مفاد کیلئے ٹرسٹ قائم کیاگیا ہو اورکوئی بھی فرد جو ٹرسٹ پر کنٹرول رکھتاہو،کنٹرول کے معنی ہیں ایک طاقت (خواہ وہ تنہا ،مشترکہ طورپر کسی دوسرے فرد کے ساتھ یا کسی دوسرے فرد کے مشورے سے) اس پرکنٹرول رکھتاہو۔

ٹرسٹ انسٹرومنٹ یاقانون کے تحت ڈسپوز کرنے ،ایڈوانس،قرض دینے ،سرمایہ کاری ،ادائیگی یا ٹرسٹ کی املاک پر اس کااطلاق ہوتا ہو، اس میں اضافہ کرنے یا کسی فرد کو بینی فشری کی حیثیت سے ہٹانے یا بینی فشریز کی کلاس سے :۔ ٹرسٹیز کاتقرر کرنا یا ہٹانا:۔ 

ہدایت ،رائے کو روکنا، یا ان میں سے کسی کو اختیارات سےتجاوز کو ویٹو کرنا، ایچ ایم آر سی کے منی لانڈرنگ ریگولیشنز 2007 (شق 6) کے تحت بینی فیشیل مالکان انفرادی (یا کوئی ایک فرد) ٹرسٹ کی پشت پر ہو جو بالآخر ٹرسٹ کے مالک ہوں یاجس کی جانب سے کسی ٹرانزیکشن یا ایکٹویٹی کی گئی ہوکا اس پر کنٹرول ہو، جو کہ اثاثوں یا ووٹنگ کے 25فیصد سے زیادہ کامالک ہو یا جو اس پر کنٹرول رکھتاہو خواہ یہ مفادات بالواسطہ طورپر ہوں۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ بینی فیشیل مالک کی اصطلاح کی روشنی میں جیسا کہ برطانیہ کے قوانین میں موجود ہے، جہانگیر ترین کو ٹرسٹ پر مکمل کنٹرول ہے وہٹرسٹس کے بڑے مفادات اوربینیفٹس کے مالک ہیں، سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت نے جہانگیر ترین سے رینڈم ٹرسٹ،اے کے مین ٹرسٹ جو ایچ ایس بی سیگیرزیلر سوئٹزرلینڈ(جنیوا) آفس کے تحت قائم کیاگیا کی تفصیلات طلب نہیں کیں، جس کاانتظام اب ای ایف جی ویلتھ سالوشنز جرسی چلارہی ہے۔

یہ رپورٹ 6 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی

مزید خبریں :