عمران، جہانگیر نااہلی کیس: مقدمے میں کب کیا ہوا؟

سپریم کورٹ عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے حوالے سے کیس کا فیصلہ آج سنائے گی—۔فائل فوٹو/اے ایف پی

ملک کی اعلی عدلیہ آج پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کے مقدمے کا فیصلہ سنائے گی۔

اس سلسلے میں عدالت نے 405 روز تک 51 سماعتوں میں 101 گھنٹے طویل دلائل سنے ہیں جو دونوں فریقوں کے وکیلوں نے پیش کیے۔

تمام نظریں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب لگی ہوئی ہیں جس نے ملک کے اعلیٰ ترین قانونی دماغوں کو سنا ہے۔

فاضل عدالت کے تین رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کی، جس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

یہ درخواست اثاثے ظاہر نہ کرنے اور مدعا علیہان کی آف شور کمپنیوں کی موجودگی پر دائر کی گئی تھی، جس کے دوران دونوں فریقوں کے وکلاء نے 73 سے زائد مقدمات کے حوالے دیے، انہوں نے ایک درجن مختلف ممالک جیسے بھارت، امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، بنگلادیش، نیوزی لینڈ اور یورپین ممالک میں دیے گئے عدالتی فیصلوں کے تین درجن اقتباسات بھی پڑھے۔عدالت کے سامنے 7 ہزار صفحات پر مشتمل مواد پیش کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے پانچ مختلف کتابوں سے حوالے پیش کیے۔

اس مقدمے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کس طرح عمران خان نے مغرب میں بطور کرکٹر لاکھوں ڈالر جمع کیے اور کس ذریعے سے وہ رقم 1980 میں پاکستان منتقل کی گئی تاکہ وہ بنی گالا کی رہائش گاہ تعمیر کرسکیں جبکہ عمران خان اور جہانگیر ترین نے کیوں ایف بی آر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے گئے ڈکلیئریشن میں آف شور کمپنیوں کا ذکر نہیں کیا؟

 تین ججوں نے حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ، عمران خان اور جہانگیر ترین کے وکیل نعیم بخاری اور سکندر بشیر مہمند سے 237 سوالات پوچھے۔ 

اکرم شیخ پاناما کیس سے وابستہ مماثلتیں تلاش کرتے رہے جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف کو عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ پاناما کیس کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اور اہم مقدمہ دکھائی دیتا ہے۔

 ججوں اور کاؤنسل کی جانب سے عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کانام 205 مرتبہ لیا گیا۔


ایک مرتبہ کورٹ روم نمبر ایک میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب معزز جج نعیم بخاری کو ڈھونڈ رہے تھےجو اس وقت عدالت میں موجود نہیں تھے۔ ججوں کی جانب سے انہیں تلاش کرنے کا حکم دینے کے بعد 65 منٹ بعد وہ پہنچے۔

یہ نمائندہ شاہد ہے کہ یہ انور منصور خان تھے جنہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ نعیم بخاری جلد ہی یہاں موجود ہوں گے۔

انور منصور غیرملکی فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے تھے۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے 17 طویل گھنٹوں تک دلائل دیے۔ انہوں نے 18 مختلف ممالک کی عدالتوں کے 152 مقدمات کا حوالہ دیا۔ نعیم بخاری نے اپنے دلائل سمیٹنے کے لیے 45 گھنٹے سے زیادہ کا وقت صرف کیا جبکہ سکندر بشیر نے سپریم کورٹ کی معاونت میں 18 گھنٹے کا وقت لیا۔

انور منصور نے ججز کو قائل کرنے میں 11 گھنٹے لگائے کہ پی ٹی آئی غیرملکی فنڈز قبول نہیں کر رہی تھی اور یہ کہ اس کیس کے اجزا براہ راست پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت ای سی پی سے منسلک ہیں۔ باقی ماندہ وقت اکرم شیخ نے لیا جن کی معاونت ایک اور سینئر وکیل نے کی۔

اس نمائندے نے خوش قسمتی سے دونوں مقدمات عمران خان بمقابلہ حنیف عباسی اور پاناما پیپرز بمقابلہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی کاروائی دیکھی ہے۔ 

پاناما کیس کی سماعت 126 روز ہوئی، جہاں ملک کے اعلیٰ قانونی دماغوں نے 35 سماعتوں میں ججوں کے 111 قیمتی گھنٹوں کا وقت لیا۔ اس مقدمے میں نہ تو عمران خان اور نہ ہی پارٹی کے کسی اعلیٰ رہنما نے شرکت کی جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پاناما کیس کی 35 میں سے 32 کاروائیوں میں کمرہ عدالت میں 94 گھنٹے خرچ کیے تھے۔

اسی طرح سابق وزیراعظم نواز شریف یا ان کے بچوں نے پاناما کیس کی ایک بھی سماعت میں شرکت نہیں کی۔ کچھ وکلاء کو ان پیچیدگیوں میں حقیقی مماثلتیں نظر آتی ہیں جن سے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

اعلیٰ قانونی اذہان کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کی قسمت سنگین طور پر معلق ہے جبکہ عمران خان اس کیس میں بچ سکتے ہیں، صرف وقت ہی بتائے گا کہ اس کیس کا آج کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔


یہ رپورٹ 15 دسمبر 2017 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی

مزید خبریں :