02 جنوری ، 2018
اسلام آباد: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے مشترکہ موقف اپناتے ہوئے کہا کہ پاکستان جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان مخالف بیان کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدات قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔
وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی ایم او اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت، وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر دفاع خرم دستگیر سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات نے شرکت کی۔
اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری کو ہنگامی طور پر بلایا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ اعزاز چوہدری کو امریکی صدر کے بیان پر پاکستان کا لائحہ عمل بتایا گیا جس سے وہ امریکی حکام کو آگاہ کریں گے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی قوم اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتی ہے، اعلامیہ قومی سلامتی کمیٹی
قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل اور معیشت کی قیمت پر لڑی، قربانیوں اور شہداء کے خاندانوں کے درد کا بےحسی سے مالی قدر سے موازنہ کرنا ممکن نہیں۔
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے کے مطابق پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے مشترکہ موقف اپنایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف غیر متزلزل جنگ لڑی اور قیام امن کے لیے پاکستان نے تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی۔
قومی سلامتی کمیٹی نے مشترکہ موقف اپنایا کہ پاکستانی قوم اپنے وطن کی حفاظت اور اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھنا جانتی ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر پاکستان جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی قوم نے دہشتگردی کیخلاف مثالی وغیرمتزلزل عزم کا مظاہرہ کیا، اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کے انسداد دہشت گردی آپریشن کے باعث خطے میں القاعدہ کا خاتمہ ہوا اور پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان کو افغانستان میں مشترکہ ناکامی کا ذمے دارقرار نہیں دیا جا سکتا اور اتحادیوں پر الزام لگا کر افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں سیاسی محاذ آرائی، کرپشن اورمنشیات بڑے چیلنجز ہیں جبکہ پڑوسی ملک میں حکومتی عملداری کے باہرعلاقے بین الاقوامی دہشتگردوں کی پناہ گاہوں سے بھرے ہیں، دہشتگردوں کی ان پناہ گاہوں سے پورے خطے خصوصاً ہمسایہ ممالک کو شدید خطرات لاحق ہیں
قومی سلامتی کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ امریکی قیادت افغانستان میں دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحادیوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کریں جبکہ عالمی اتحاد کو افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف آج بھی بھرپور مدد کر رہے ہیں اور باہمی اعتماد کے ساتھ ہی آگے بڑھنے سے افغانستان میں پائیدار و مستحکم امن قائم ہو سکتا ہے۔
اجلاس میں پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ افغان قیادت میں امن عمل ناصرف خطے بلکہ عالمی امن وسلامتی کے لیے ضروری ہے اور پاکستان افغان قیادت میں امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں امریکی صدر کے بیان کے جواب میں حکمت عملی طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ٹرمپ کا بیان انتہائی غیر ذمے دارانہ ہے، شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے امریکی صدر کے بیان پر اپنے رد عمل کے اظہار میں کہا ہےکہ ٹرمپ کا پاکستان کے حوالے سے بیان انتہائی غیر ذمے دارانہ ہے، ٹرمپ نے پاکستان اور پاکستانی قوم پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں، اس بیان پر پوری قوم کومتحد ہوکر اپنا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں، وزیر دفاع
وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ القاعدہ کوافغانستان میں شکست دینے کے لیے پاکستان نے امریکا کی ناقابل تردید مدد کی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور افواج کی قربانیاں شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں،پاکستان اپنی زمین کا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، پاکستانی سرزمین پرافغانستان سمیت کسی کی بھی جنگ نہیں لڑنے دیں گے۔
امریکا دہشت گردی کو شکست دینےمیں سنجیدہ نہیں، بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی امریکی صدر پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا دہشت گردی کو شکست دینےمیں سنجیدہ نہیں ہے۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں امریکی صدر کو مینشن کرتے ہوئے لکھا کہ برائے مہربانی کوئی امریکی صدر کو بتا ئے کہ اتحادی سپورٹ فنڈ ، کام کی مد میں ادائیگی اور انسانی بنیادوں پر دی گئی امریکی امداد کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے۔
’ٹرمپ ہمارے خرچ پر33 ارب ڈالرکا آڈٹ کرالیں‘
ادھر وزیر خارجہ خواجہ آصف کا ٹوئٹر پر کہنا ہے کہ ٹرمپ چاہیں تو پاکستانی خرچ پر کسی امریکی فرم سے اپنے 33 ارب ڈالرز کا آڈٹ کرالیں، پتا چل جائے گا کون سچ بول رہا ہے ، کون دھوکا دے رہا ہے۔
دوسری جانب وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت کل ہوگا جس میں ملکی اقتصادی معاشی صورتحال سمیت سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات سے متعلق بیان کا معاملہ بھی زیر غور آنے کا امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ 14 نکاتی ایجنڈے پر غور کرے گی، پرتگال، مصر اور بوسنیا کی حکومتوں کے ساتھ تعاون بڑھانے کی یاداشتوں کی منظوری ایجنڈے میں شامل ہے۔
پاکستان اسٹون ڈیولپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نو، کراچی سے کابل ممنوعہ گاڑیوں کے 51 پارٹس کے کنٹیرز کو جانے کی اجازت، آرٹ اینڈ کلچر بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری اور پورٹ قاسم اتھارٹی کے چیرمین آغا جان اختر کی مدت ملازمت کی توسیع کی سمری ایجنڈے میں شامل ہے۔
مردم شماری کے عبوری نتائج حلقہ بندیوں کے لئے استعمال کرنے کی منظوری بھی کابینہ کے ایجنڈے کا حصہ ہے جس کی منظوری کے بعد مردم شماری کے عبوری نتائج الیکشن کمیشن کو بھجوائے جائیں گے۔
خیال رہے کہ ملک میں چھٹی مردم شماری 15 مارچ سے 25 مئی 2017 کے دوران کی گئی جس کے دوران ملک کو کُل ایک لاکھ 68 ہزار بلاکس میں تقسیم کیا گیا تھا۔
ٹرمپ کی پاکستان پر تنقید
ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک بار پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکا نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران اسلام آباد کو 33 ارب ڈالر امداد دے کر بے وقوفی کی۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ امریکا نے گزشتہ 15 برس میں احمقوں کی طرح پاکستان کو 33 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیے اور انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پاکستان نے ہمارے حکمرانوں کو بے وقوف سمجھا، جن دہشت گردوں کو ہم افغانستان میں ڈھونڈتے رہے پاکستان نے انہیں محفوظ پناہ گاہیں دیں اور ہماری بہت کم معاونت کی، لیکن اب مزید نہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکا کی جانب سے پاکستان پر متعدد بار دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا جا چکا ہے جس کے جواب میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے واضح پیغام دیا تھا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور امریکا اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر گرانے کے لیے بے بنیاد الزامات عائد کر رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل بھی پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستان کی امداد بند کرنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔
گزشتہ برس دسمبر میں امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف بھی کیا تھا۔