بلاگ
Time 05 جنوری ، 2018

شریف برادران کا دورہ سعودی عرب

آج کل کے ملکی حالات میں نواز شریف اور شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب بہت اہمیت کا حامل ہے—۔فائل فوٹو

ہمارا حکمران طبقہ، سیاستدان اور بیوروکریٹس عمرہ کی سعادت حاصل کرنے یا سرکاری دوروں پر سعودی عرب تو جاتے رہتے ہیں لیکن سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے اس معاملے کو خفیہ رکھ کر شریف برادران کے اس دورے کی اہمیت کو خراب کیا اور لوگوں میں تجسس پیدا کردیا، شہباز شریف کی سعودی ولی عہد سے 31 دسمبر کی شام کو ہونے والی ملاقات کو بھی منظرعام پر نہیں لایا گیا اور ترکی کے وزیراعظم سے مسجد نبوی کے دروازے پر ملاقات کو 'اچانک ہونے والی ملاقات' قرار دیا گیا، حتیٰ کہ سعودی حکومت بھی شریف برادران کی ملاقات کو سامنے نہیں لائی، جس سے مزید تجسس پیدا ہوا۔

بہرحال آج کل کے ملکی حالات میں نواز شریف اور شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ شہباز شریف تو اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر لاہور سے خصوصی طیارے پر گئے لیکن نواز شریف سعودی ایئرلائنز سے سعودی عرب پہنچے جہاں ان کے بیٹے حسین نواز بھی موجود تھے۔

سعودی ولی عہد سے ملاقات کے بعد نواز شریف کو بھی خصوصی طیارہ مل گیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی طور پر نواز شریف سے سعودی حکومت کی کچھ ناراضگی تھی جو شہباز شریف کی کوششوں سے کسی حد تک دور ہوتی نظر آرہی ہے۔ چاہے یہ ناراضگی یمن فوج بھیجنے کے حوالے سے ہو یا جنرل (ر) راحیل شریف کے اتحادی فوج کا سربراہ بننے سے پہلی بار انکار کرنے سے پیدا ہوئی۔

نواز شریف کی نااہلی کے بعد ملک اور خصوصی طور پر (ن) لیگ کی سیاست میں جو اتار چڑھاؤ پیدا ہوا، اس میں شہباز شریف نے حالات کو بھانپتے ہوئے ایک زیرک سیاستدان کے طور پر کرادا ادا کیا۔

انہوں نے سیاسی طور پر تو کچھ ملاقاتیں کیں لیکن غیر سیاسی طور پر بھی اہم ملاقاتیں کیں اور اپنے بڑے بھائی کو اس بارے میں قائل کرلیا کہ الیکشن 2018 میں جیت کی صورت میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے لیکن نواز شریف کی جانب سے جارحانہ سیاست، خاص طور پر عدلیہ اور بلواسطہ طور پر اسٹیبلشمنٹ پر الزامات پر مبنی تابڑ توڑ حملوں کو روکنا ان کے لیے ایک چیلنج بن گیا، شہباز شریف کی سوچ رہی ہے کہ اس طرح اور حالات خراب ہوجائیں گے اور ملک کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔

شہباز شریف نے کئی بار اپنے بڑے بھائی کو قائل کرنے کی کوشش کی، بلآخر ان کو سعودی عرب ہی سامنے نظر آیا اور اس میں ترکی کا بھی کردار صاف نظر آرہا ہے، شہباز شریف نے سعودی عرب پہنچ کر پہلے تو ایسے حالات پیدا کیے کہ سعودی ولی عہد سے نواز شریف کی ملاقات کروا کر ناراضگی میں کمی لائی جائے اور آخرکار وہ نوازشریف کو ملانے میں کامیاب ہوگئے اور اپنی دوسری ملاقات کے بعد نواز شریف کے ساتھ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ملاقات کرادی گئی جو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے حوالے سے ذرائع کہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے بہترین تعلقات چاہتے ہیں اور ایٹمی صلاحیت کے حامل واحد اسلامی ملک پاکستان کو کسی بھی طرح غیر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے، وہ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک اور پرامن دیکھنے کے خواہاں ہیں۔

ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کو بھی یہی مشورہ دیا کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے پاکستان میں بدامنی پیدا ہو اور وہ غیر مستحکم ہو۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سعودی عرب نے نواز شریف کو جارحانہ قدم اٹھانے سے منع کردیا، شہاز شریف نے بھی بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کو قائم کرنے کے اعلان پر سعودی عرب کے کردار کو سراہا اور دونوں ملکوں کے تعلقات کومضبوط رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

دوسری جانب شریف برادران کے اس دورے پر قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ این آر او کے لیے دورے کیے جارہے ہیں اور مقدمات سے بچنے کے لیے نواز شریف ریلیف چاہتے ہیں لیکن  ہم یہ بتاتے چلیں کہ نواز شریف کبھی بھی این آر او کی بات نہیں کریں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ این آر او ان کے لیے سیاسی خودکشی ہوگی اور ان کی سیاسی جانشین مریم نواز کو بھی سیاسی نقصان ہوگا۔

عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف اپنی دولت بچانے کے لیے سعودی عرب کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں، یہ بات تو درست ہے کہ العزیزیہ کے نام سے نواز شریف خاندان کا کاروبار سعودی عرب میں ہے لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ اس ملاقات میں سعودی عرب میں ان کے کاروبار اور اثاثوں پر کوئی بات ہوئی ہے یا نہیں ہوئی۔ بہرحال یہ ضرور ہے کہ سعودی عرب کا موقف واضح ہے کہ وہ پاکستان میں بدامنی نہیں چاہتے۔     


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔