11 جنوری ، 2018
فیصل آباد میں نویں جماعت کے طالب علم کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔
پولیس کے مطابق ڈجکوٹ کے علاقہ چک 243 رب کے رہائشی نویں جماعت کے طالب علم فیضان بشیر کی گاؤں کے باہر کھیتوں سے تشدد زدہ لاش ملی ہے۔
15 سالہ مقتول گذشتہ رات سے لاپتہ تھا اور تلاش جاری تھی۔ پولیس نے پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ورثاء کے سپرد کردی ہے جبکہ مقتول کے والد کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف قتل کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق قتل کی وجوہات سامنے نہیں آ سکیں جبکہ نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے تلاش شروع کردی گئی ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد موت کی وجوہات کا تعین کیا جا سکے گا تاہم پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ قومی امکان ہے کہ طالبعلم کو زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا ہے۔
انچارج رورل ہیلتھ سینٹر ڈجکوٹ ڈاکٹر خالد اقبال نے کہا کہ لڑکے کے ہاتھ اور پاؤں پر مزاحمت کے آثار تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بچوں کے ساتھ سے زیادتی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور ملک میں روزانہ 11 معصوم بچے جنسی درندگی کا شکار بنتے ہیں۔
پولیس ریکارڈ اور مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف 2016 میں ملک بھر میں 100 بچے ایسے تھے جو زیادتی کے نتیجے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا قتل کر دیے گئے۔
پولیس تک پہنچنے والے کیسز میں سے 76 فی صد دیہی علاقوں جب کہ 24 فی صد شہری علاقوں کے تھے۔ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والے بچوں میں سے 41 فی صد لڑکے تھے اور اہم بات یہ ہے کہ بہت سے واقعات پولیس تک پہنچتے ہی نہیں، اس لیے ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں بن پاتے۔
سال2015 کے مقابلے میں 2016 میں بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کافی تشویش ناک ہے۔ افسوس کا پہلو یہ ہے کہ زیادتی کے 43فیصد کیسز میں جان پہچان یا قریبی رشہ دار ملوث تھے۔