ایگزیکٹ ملازمین نے ریکس ٹلرسن بن کر بھی لوگوں کو فون کیا، برطانوی صحافی کا انکشاف

کراچی میں واقع ایگزیٹ کا دفتر—۔فائل فوٹو

لندن: جعلی ڈگریوں کا دھندا کرنے کے حوالے سے بدنام کمپنی ایگزیکٹ کے ملازمین نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کاروپ دھار کر بھی لوگوں کو فون کرنے سےگریز نہیں کیا۔

 یہ انکشاف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے صحافی سائمن کاکس نے جیو نیوز کے نمائندے سعید نیازی کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران کیا اور بتایا کہ ایگزیکٹ انہیں بھی 10 منٹ میں بزنس کی ڈگری بیچنے پر آمادہ تھی۔

بی بی سی کے صحافی سائمن کاکس—۔جیو نیوز اسکرین گریب

بی بی سی کے تحقیقاتی صحافی سائمن کاکس کا دعویٰ ہے کہ جعلی ڈگریوں کے حوالے سے مشہور کمپنی ایگزیکٹ نے انہیں ساڑھے 3 ہزار ڈالرز کے عوض ڈگری کی پیش کش کی۔

سائمن کاکس، ہیلن کلفٹن اور میتھو چیپمین نے ایگزیکٹ کے جعلی ڈگریوں کے کاروبار کے حوالے سے خصوصی تحقیقاتی رپورٹ بی بی سی کی ویب سائٹ، ریڈیو اور بی بی سی ورلڈ سروس پر شائع کی۔

سائمن کاکس کا کہنا تھا، 'میں نے نکسن یونیورسٹی سے رابطہ کیا اور مجھے 10 منٹ میں بزنس کی ڈگری کی پیش کش ہوگئی، حالانکہ میں بزنس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا'۔

بی بی سی صحافی کے مطابق 'انہوں نے ساڑھے 3 ہزار ڈالرز کے عوض مجھے ڈگری کی پیش کش کی، انہوں نے مجھے دکھایا کہ ڈگری کیسی ہوگی،کون کون سے کورسز ہوں گے، وہ صرف میرے کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات جاننا چاہتے تھے اور مجھے ڈگری مل جاتی'۔

سائمن کاکس نے بتایا کہ ایگزیکٹ کے ملازمین امریکا اور سعودی عرب کی اہم شخصیات کے نام سے بلیک میلنگ کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا، 'ہم نے ایگزیکٹ سے متاثرہ ایک وکیل سے بات کی، جس کا تعلق اسرائیل سے تھا، وہ ایگزیکٹ کو ایک لاکھ ڈالر ادا کر چکا تھا، اس نے بتایا کہ وہ ایگزیکٹ کے ملازمین کے ہاتھوں بے وقوف بن گیا، انہوں نے اسے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن بن کر فون کیا اور بعد میں اسے احساس ہوا کہ یہ اصلی نہیں تھا۔

سائمن کاکس نے کہا کہ بی بی سی کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ ایگزیکٹ نے 2 لاکھ سے زائد جعلی ڈگریاں فروخت کیں۔

ان کے مطابق بی بی سی نے ایگزیکٹ کے متاثرین سے بات کی اور ایک ایسے برطانوی شہری سے بھی بات کی جس کے والد سے کمپنی نے 6 لاکھ ڈالرز دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے ذریعے اُس وقت بٹورے جب وہ بستر مرگ پر تھا۔

سائمن کاکس نے کہا کہ ایف بی آئی کے ایک اندازے کے مطابق ایگزیکٹ نے 20 برس میں جعلی ڈگریوں کے ذریعے تقریباً ایک ارب ڈالر تک منافع کمایا۔

ایف بی آئی کے اعدادو شمار کے مطابق ایگزیکٹ نے گزشتہ 10 برس میں 140 ملین ڈالرز سے زیادہ رقم بنائی، تاہم سائمن کاکس کے مطابق شاید رقم اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے، یعنی گزشتہ 10 یا 20 سال میں یقیناً نصف بلین ڈالرز یا یہ رقم ایک ارب ڈالر تک بھی ہو سکتی ہے۔

سائمن کاکس کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹ 350 سے 540 آن لائن کورسز کے ذریعے جعلی ڈگریوں کا دھندا کر رہی ہے اور جو جعلی ویب سائٹس نیو یارک ٹائمز نے بے نقاب کی تھیں، وہ ابھی چل رہی ہیں۔

سائمن کاکس نے مزید کہا کہ ایگزیٹ عمیر حامد کے جیل جانے کے بعد ڈر رہی ہے، لیکن اس کے خلاف ایکشن پاکستان کے شہر کراچی ہی میں ممکن ہے جہاں سے یہ دھندا ہو رہا ہے۔

جعلی ڈگری کیس کی ابتداء

دنیا بھر میں جعلی ڈگری کے کاروبار کرنے والی کمپنی ایگزیکٹ کا انکشاف 18 مئی 2015 کوامریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے کیا۔

ایگزکٹ کا جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل دنیا بھر میں پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنا کیونکہ ایگزیکٹ جعلی ڈگریوں، پیسے چھاپنے اور لوگوں کو بلیک میل کرنے کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا چکی تھی۔

کمپنی کا اسکینڈل سامنے آنے پر حکومت، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں نے مل کر بھرپور کارروائی کی اور کمپنی کے مالک شعیب شیخ، وقاص عتیق سمیت جعلی ڈگری کا دھندا کرنے والے کئی افراد حراست میں لے لیے گئے۔

عالمی جریدوں اور ٹی وی چینلز نے اس معاملے پر کڑی تنقید کی جبکہ امریکا میں کمپنی کا ایک فرنٹ مین پکڑا گیا جسے اعتراف جرم اور بھانڈا پھوڑنے کے بعد سزا ہوئی۔

جعلی ڈگری اسکینڈل کے خلاف پاکستان میں کراچی اور اسلام آباد میں مقدمات درج ہوئے، کارروائیاں تیز کی گئیں مگر پھر کارروائی کی راہ میں چند پراسرار موڑ آگئے اور یہ معاملہ اب جوں کا توں خفیہ قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔

مزید خبریں :