19 جنوری ، 2018
ماورائے عدالت قتل کیے گئے نقیب اللہ کو جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا میں سپرد خاک کردیا گیا جب کہ کراچی میں سپرہائی وے پر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔
نوجوان کی میت آبائی علاقے جنوبی وزیرستان پہنچائی گئی جہاں قبائلی عوام کی بڑی تعداد نماز جنازہ میں شرکت کے لئے پہنچی۔
نمازجنازہ میں محسود، برکی اور شمالی وزیرستان کے وزیر اور داوڑ قبائل نے بھی شرکت کی۔
نقیب کو جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا کے علاقہ مکین میں سپرد خاک کیا گیا۔ نمازجنازہ اور تدفین میں پولیٹیکل انتظامیہ نے بھی شرکت کی۔
کراچی میں احتجاج
نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف کراچی میں سپر ہائی وے پر احتجاج کیا گیا جہاں مظاہرین نے سپر ہائی وے بلاک کردی اور سڑک پر ٹائر جلاکر احتجاج کیا جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔
مظاہرین نے مطالبہ کہا کہ نقیب اللہ قتل کیس کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
گزشتہ روز نقیب کے کزن نور خان نے جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نقیب کے متعلق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کے دعوؤں میں کوئی سچائی نہیں، وہ پہلے بھی کراچی میں آکر محنت مزدوری کرتا رہا ہے اور اس کے دہشت گردوں سے کوئی تعلقات نہیں تھے۔
نور خان کے مطابق نقیب کو تین جنوری کو سادہ لباس اہلکاروں نے ایک ہوٹل سے اٹھایا تھا۔
نقیب کے دوست عرفان خان کا کہنا تھا کہ نقیب تو سوشل میڈیا کا بادشاہ بننا چاہتا تھا۔ اس کا انداز اور اس کے شوق دہشت گرد والے بالکل نہیں تھے۔
عرفان خان کے مطابق نقیب ماڈل بننا اور مشہور ہونا چاہتا تھا۔
پروگرام کے دوران وزیر داخلہ سندھ سہیل انوار سیال نے یقین دلایا کہ نقیب اللہ محسود اگر بے قصور ہے تو اسے انصاف دلایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر راؤ انوار کمیٹی کو مطمئن نہ کرپائے تو وہ بھی عہدے پر نہیں رہیں گے۔
ادھر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی نقیب اللہ قتل پر از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے 7 روز میں رپورٹ طلب کرلی۔
راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
ان میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
نقیب اللہ محسود کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ معاملے کا نوٹس لیا جب کہ آئی جی سندھ نے پولیس کے اعلیٰ افسران پر مشتمل تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی۔