پاکستان
Time 22 جنوری ، 2018

کراچی: انتظار قتل کیس کی تحقیقات محکمہ انسداد دہشتگردی کے سپرد

اے سی ایل سی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والا انتظار احمد — فوٹو فائل

کراچی کے علاقے خیابان اتحاد میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان انتظار احمد کے قتل کی تحقیقات محکمہ انسداد دہشت گردی کے سپرد کردی گئیں۔

انتظارکے والد اشتیاق احمد نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے ملاقات میں پولیس کی تفتیش پرعدم اعتماد کا اظہار کیا تھا جس بعد تحقیقات سی ٹی ڈی کے سپرد کردی گئیں۔

اس حوالے سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عامر فاروقی کریں گے۔

بیٹے کا قاتل ایس ایس پی مقدس حیدر ہے، والد انتظار

ڈیفنس کراچی میں قتل ہونے والے نوجوان کے والد نے ایس ایس پی مقدس حیدر کو براہ راست بیٹے کا قاتل قرار دیا۔

19 سالہ انتظار احمد کے والد اشتیاق احمد نے کہا کہ بیٹے کے ساتھ کار میں موجود لڑکی مدیحہ کیانی اور سلمان بھی قتل میں ملوث ہے، جس طرح تفتیش ہورہی ہے اس سے انصاف کی امید نہیں۔

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں گزشتہ دنوں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والے نوجوان انتظار احمد کے والد نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی سی سی ٹی وی وڈیو منظرعام پر لائی جائے۔

انتظار کے والد نے دعویٰ کیا ہے کہ تفتیشی ٹیم واقعے میں ملوث اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کررہی ہے، سی سی ٹی وی وڈیو دکھائی گئی ہے، واقعہ ٹارگٹ کلنگ ہے۔

اشتیاق احمد نے دعویٰ کیا کہ ان بیٹے کے قتل میں اے سی ایل سی کے اعلیٰ افسران ملوث ہیں جبکہ انہوں نے کیس کی موجودہ تفتیشی ٹیم پرعدم اعتماد کا اظہار بھی کیا تھا۔

انتظار کا قتل

14 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد ہلاک ہوگیا تھا، نوجوان کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کی تھی۔

مقتول انتظار کے والدین کی پریس کانفرنس پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور واقعے کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا تھا۔

پولیس نے ابتدائی طور پر بیان دیا تھا کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے اہلکاروں نے گاڑی مشکوک سمجھ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا اور نہ رکنے پر فائرنگ کی گئ جس سے نوجوان ہلاک ہوگیا۔

پولیس کی تحقیقات کے مطابق جائے وقوعہ سے گولیوں کے 16 خول ملے تھے جب کہ مقتول کی گاڑی میں ایک لڑکی موجود تھی جو بعد میں رکشے میں چلی گئی، اس لڑکی کی شناخت بعد میں مدیحہ کیانی کے نام سے ہوئی۔

مدیحہ کیانی نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ اس کی ایک ہفتہ پہلے ہی انتظار سے دوستی ہوئی تھی اور اس نے فائرنگ کرنے والوں کو نہیں دیکھا۔

دوسری جانب مقتول کے والد کی جانب سے دشمنی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے جن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کا واقعے سے 2 روز قبل دو لڑکوں فہد اور حیدر سے جھگڑا ہوا تھا، ایک لڑکا پولیس افسر اور دوسرا وکیل کا بیٹا ہے۔

مزید خبریں :