24 جنوری ، 2018
رواں ماہ کے آغاز میں قصور میں اغوا اور زیادتی کے بعد 7 سالہ زینب کو قتل کرنے والے ملزم عمران کی جیکٹ کے 2 بٹنوں کی مدد سے تحقیقاتی ادارے اس تک پہنچنے اور گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق زینب کے قتل کے بعد قصور شہر کی تقریباً 7 سے 8 لاکھ آبادی میں سے خواتین اور بزرگ نکالنے کے بعد 60 سے 70 ہزار کے قریب افراد سے تفتیش کی گئی اور تقریباً 1100 افراد کے ڈی این اے لیے گئے۔
پولیس کے لیے قاتل کا پتہ لگانا مشکل ہوگیا تھا کیونکہ ملزم روپ بدل کر لوگوں کے درمیان ہی تھا اور کوئی اس پر شک نہیں کر پا رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کے اس مرحلے پر پاکستان فرانزک سائنس ایجنسی کی جانب سے ایسے افراد کی فہرست سامنے آئی جن کے نتائج قاتل کے ڈی این اے کے قریب ترین تھے، ان افراد کی فہرست سامنے آنے کے بعد پولیس نے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا۔
آخرکار پولیس زینب سمیت قصور کی 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل کے ملزم عمران کو 14 روزہ تحقیقات کے بعد گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی اور گذشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران گرفتاری کی تصدیق کی۔
تاہم یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں کلبلا رہا تھا کہ جب ملزم مسلسل بہروپ بدلتا رہا تو پھر تحقیقاتی ادارے اُس تک کس طرح سے پہنچے؟
بی بی سی رپورٹ کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات کرنے والے ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس کے پاس سی سی ٹی وی شواہد تھے جن میں ایک چہرہ تھا، سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھائی دینے والے ملزم کی داڑھی تھی جبکہ اس نے ایک زِپ والی جیکٹ پہن رکھی تھی، جس کے دونوں کاندھوں پر دو بڑے بٹن لگے ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق مسئلہ یہ تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں جیکٹ کا رنگ سفید نظر آرہا تھا، جو اس کا حقیقی رنگ نہیں تھا۔
بی بی سی رپورٹ کے مطابق چھاپے کے دوران تحقیقاتی اداروں کو عمران کے گھر سے ایسی ہی ایک جیکٹ ملی جس کے دونوں بٹنوں کی مدد سے پولیس ملزم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق جب ملزم کا ڈی این اے مکمل طور پر میچ ہوگیا تو پھر صرف گرفتاری ہی آخری کام رہ گیا تھا جس میں اس کی والدہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مدد کی۔
دوسری جانب یہ رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ ملزم سے تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے مطابق ملزم عمران نے بہت زیادہ پس و پیش نہیں کی اور فوراً ہی اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔
یاد رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔
زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
بعدازاں چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔
21 جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔
جس کے بعد گذشتہ روز پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کردی۔
رپورٹس کے مطابق ملزم عمران مقتول بچی زینب کا پڑوسی تھا، ملزم غیر شادی شدہ اور اس کی عمر 24 سال ہے۔
ذرائع کے مطابق مقتول بچی اور ملزم کے گھر والوں کے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا اور ملزم بچی کو اکثر باہر لے جایا کرتا تھا۔
ذرائع کا یہ بھی بتانا تھا کہ زینب کے قتل کے بعد قصور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ملزم وہاں سے فرار ہوگیا تھا جبکہ اس نے اپنی داڑھی بھی منڈھوا لی تھی۔
پولیس نے 7 سالہ زینب کے قتل کے شبہ میں ملزم عمران کو پہلے بھی حراست میں لیا تھا لیکن پھر بچی کے رشتے داروں کے کہنے پر اسے چھوڑ دیا گیا تھا، تاہم ڈی این اے میچ ہوجانے کے بعد پولیس نے ملزم کو دوبارہ گرفتار کرلیا۔