14 فروری ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں پر سماعت کے دوران فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔
مذکورہ کیس کی 12 فروری کو ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے غیر حاضری پر اٹارنی جنرل پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔
آج سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل دیئے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ 'آئین نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی معیاد کا تعین نہیں کیا'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'نااہلی کا داغ بعض اوقات کسی کے مرنے کے بعد بھی رہتا ہے'۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 'اگر کوئی کسی جرم میں سزا پائے تو وہ بھی داغ ہوتا ہے'۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیئے کہ 'سوال نااہلی کی مدت کے تعین کا ہے، آئین میں 62 ون ایف کے تحت مدت کا تعین نہیں'۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'جب مدت کا تعین نہیں تو نااہلی تاحیات ہوتی ہے'۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ 'نااہلی کا داغ مجاز فورم یا مجاز عدالت ہی ختم کرسکتی ہے اور نااہلی کا داغ ختم کیے بغیر نااہلی تاحیات رہے گی'۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا نااہل شخص ضمنی یا آئندہ الیکشن لڑ سکتا ہے؟'
جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'عدالت کو کیس ٹو کیس مدت کا تعین کرنا ہوگا'۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ 'کیا ڈکلیریشن وقت کے ساتھ ازخود ختم ہوسکتا ہے'۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'ڈکلیریشن ازخود ختم نہیں ہوسکتا'۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ 'کیا اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں'۔
جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ 'نااہلی کی مدت کا معاملہ پارلیمنٹ ہی قانون سازی کے ذریعے کرسکتی ہے، جب تک پارلیمان قانون سازی نہیں کرتی تو ڈکلیریشن موجود رہے گا'۔
اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو 'آگاہ کیا کہ آئین میں نااہلی ڈکلیریشن کو ری وزٹ یعنی (ختم) کرنے کا میکنزم بھی نہیں'۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جو بعد میں سنایا جائے گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔
دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔
جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔
اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔
سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔
ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے
تاہم واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
6 فروری کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں، وہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔