پاکستان
Time 22 فروری ، 2018

وزارت اور پارٹی صدارت چھین لی، میرا نام بھی چھین لیں، نوازشریف


اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے نااہل قرار دیئے جانے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی وزارت اور پارٹی صدارت چھین لی گئی اب ان کا نام نوازشریف بھی چھین لیں۔

احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ یہ کوئی غیر متوقع فیصلہ نہیں ہے، پہلے انھوں نے ایگزیکیٹو حکومت کو مفلوج کردیا اور اب اس فیصلے نے مقننہ (پارلیمنٹ) کا اختیار بھی چھین لیا ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا، '28 جولائی کو میری وزارت چھین لی گئی اور کل کے فیصلے سے مجھ سے مسلم لیگ (ن) کی صدارت چھین لی گئی، میرا نام محمد نواز شریف ہے، آئین میں کوئی شق ڈھونڈیں، جس کی مدد سے مجھ سے میرا نام محمد نواز شریف بھی چھین لیں'۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں کوئی قانون نہیں کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزیراعظم کو نکال دو، 28 جولائی کے فیصلے میں بلیک لاء ڈکشنری استعمال کی گئی تھی، کل جو فیصلہ ہوا ہے، اس کی بنیاد بھی وہی فیصلہ ہے کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے اور اقامہ کی بنیاد پر نااہل کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ مزید خوروخوض کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دے دیں۔

نواز شریف نے کہا، کل یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا قانون ایک شخصیت کے لیے تھا، یہ قانون بھٹو نے بھی بنایا تھا، جسے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ختم کیا اور بعد میں 2014 میں اسے سب پارٹیوں نے مل کر بنایا، یہ قانون کسی کی ذات کے لیے کیسے ہوسکتا ہے؟

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے یکے بعد دیگرے آنے والے فیصلے نواز شریف کے لیے ہیں، جو نواز شریف کی ذات کے گرد گھومتے ہیں، یہ غصے اور بغض میں دیئے جارہے ہیں۔

دوسری جانب میاں نوازشریف کی زیر صدارت پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں پارٹی رہنماؤں کا اہم اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ مریم نواز، پرویز رشید، مریم اورنگزیب، عابد شیر علی، دانیال عزیز، مصدق ملک، تہمینہ دولتانہ اور آصف کرمانی سمیت دیگر شریک ہوئے جب کہ کارکنان کی بڑی تعداد بھی پنجاب ہاؤس میں موجود تھی۔

اس موقع پر کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کے قانون سے انحراف کرتے ہوئے مجھے نااہل کیا گیا، 2014 میں تمام جماعتوں نے مل کر یہ قانون بنایا، پھر جب ڈکٹیٹر آئے تو انہوں نے اس قانون کو ختم کیا‘۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 پر پورا نہ اترنے والا نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کی صدارت نہیں کرسکتا۔

عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے نااہل ہوگئے، جنہیں 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کے فیصلے میں آئین کی دفعہ 62، 63 کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔

مزید خبریں :