(ن) لیگ اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کی پوزیشن میں

اگرچہ پاکستان مسلم لیگ (ن)سینیٹ کی 52 نشستوں کیلئے ہونےو الے انتخابات کے بعد سینیٹ کی بڑی جماعت کے طور پر ابھری ہے اور اب اپنے اتحادیوں کی مدد سے چیئرمین سینیٹ لانے کیلئے بہتر پوزیشن میں ہے ۔اگر اپوزیشن بھی ایک متحدہ محاذ بنالیتی ہے تو وہ بھی اس سے زیادہ دور نہیں ہے ،اس طرح اہم عہدے کیلئے دوڑ آسان نہیں ہے جیسا کہ حکمران جماعت کیلئے آسان نظر آتی ہے۔

جیسا کہ 15 آزاد سینیٹرز اہم عہدے کیلئے حتمی کردار ادا کریں گے۔بلوچستان اور کراچی میں نقصان نے الیکشن میں بڑی جگہ بنادی ،جیسا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ناصرف پاکستان مسلم لیگ نواز اور ایم کیوایم کو بلکہ خیبر پختونخوا میں چھ سیٹوں پر لڑتے ہوئے 2 سینیٹرز لینے میں کامیاب ہوکر تحریک انصاف کو بھی حیران کردیا۔

یوں پی پی کے 18 سینیٹرز ریٹائرڈ ہوئے اور انہوں نے بالآخر 13 واپس لے لیے اور اب آزاد امیدواروں پر نظر ہے ،کیا ہی دلچسپ ہوجائے گا کہ اگر پی پی اورتحریک انصاف کسی معاہدے پر آجاتے ہیں۔

ذرا ئع نے کہا ہے کہ یہ بھی خارج از امکان نہیں ہے ۔یہ سب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے ریس میں ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی آزاد سینیٹرز کو اپنی طرف لانے کی کوشش میں ہیں۔

پی پی کے مقابلے میں (ن)لیگ براہ راست 33 سینیٹرز پر ہے جب کہ پی پی 20، آزاد 15 اور تحریک انصاف کے 12 سینیٹرز ہیں۔(ن)لیگی اتحادی جیسے نیشنل پارٹی کے پاس 5، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی 5 اور جے یو آئی (ف)کی چار سیٹیں اس کی طاقت 47 تک بڑھا سکتی ہے۔ اگر یہ 4 یا 5 آزاد سینیٹر، ایم کیوایم کے 4 سینیٹر مل گئے تو انہیں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

اگر زرداری  پی ٹی آئی کے 12 سینیٹرز کی حمایت لیتے ہیں تو پی پی تاریخ رقم کرسکتی ہے ۔جے یو آئی (ف)کی پانچ ،جماعت اسلامی کی دو ، ایم کیوایم کی پانچ اور اے این پی کی ایک سیٹ سے سینیٹ کی دوڑ میں بہت کچھ مل جاتا ہے اور یہ حتمی کردار ادا کرسکے گی لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن)اور سابق وزیر اعظم نوازشریف اپنے نامزد کردہ چیئرمین کو کیلئے لانے پر بہت کچھ داؤ پر رکھ سکتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ ان کے اور (ن)لیگ کیلئے پہلا ٹاسک مضبوط چیئرمین اور دوسرا حتمی قانون سازی اور ترمیم کو یقینی بنانے کیلئے اکثریت اور کافی حمایت حاصل ہوگی ۔پی پی اور تحریک انصاف کا اس قانون سازی کو روکنے کیلئے ارادہ ہے ،لیکن جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے ۔آج جو صورتحال ہے زرداری کی پہلی ترجیح پی ٹی آئی اور عمران خان تک جانا اور بات کرنا ہوگی ،لیکن یہ عمران خان کیلئے آسان نہیں ہوگا کہ جو حالیہ سینیٹ الیکشن میں ووٹ کیلئے نہیں آئے کہ زرداری سے ہاتھ ملالیں۔

لیکن دونوں ہی جانتے ہیں کہ اگر وہ علیحدہ کھڑے ہوتےہیں تو پھر (ن)لیگ کو اور اس کے اتحادیوں کو اپنا نامزد کردہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو منتخب کرانے سے نہیں روک سکتے ۔عمران جب کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات سامنے آنے چاہئیں جیسا کہ ان کے امیدوار چودھری سرور نے 14 اضافی ووٹ لیے اور کیسے پی پی نے خیبر پختونخوا سے 6 ووٹ لے لیے ،کیاوہ خیبر پختونخوا میں اپنے ایم پی ایز کیخلاف ایکشن لیں گے اورچودھری سرور سے وضاحت لی جائے گی۔

(ن)لیگ کا اہم عہدے کیلئے خاموشی ہے اگر وہ جارحانہ سیاست کودیکھتے ہیں جیسا کہ نوازشریف کے بیانیے سے واضح ہے سینیٹر پرویز رشید اور مشاہد اللہ دونوں ہی نے جارحانہ مہم چلائی اور ان میں سے ایک نے ماضی میں اپنی وفاداری بھی ثابت کی ۔را جا ظفر الحق یا مشاہد حسین سید ان کے انتخاب سے ہوسکتے ہیں ، پی پی اور حکومت کے درمیان رضا ربانی ہی ایسے ہیں کہ جس پر دونوں میں شاید بات ہوسکتی ہے ،دیگر امیدواروں میں سابق چیئرمین فارو ق نائیک ،سلیم مانڈوی والا ،نواز کھوکھر اور شیری رحمان اور یہ اگر اس ریس میں آکر منتخب ہوجاتی ہیں تو سینیٹ کی تاریخ میں پہلی چیئرمین خاتون ہونگی۔

آصف زرداری کے قریبی سینیٹر رحمان ملک سے متعلق کہا جارہا ہے کہ انہوں نے کو چیئرمین کا اعتماد کھودیا ہے،کچھ حیران ہوسکتے ہیں لیکن حتمی فیصلہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قائد نوازشریف اور نئے صد رشہباز شریف کی جانب سے کیا جائے گا۔

حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے صاف اشارے ملتے ہیں کہ آج کی صورتحال کیا ہے، دوسری جانب یہ یہیں نہیں رک جاتا اور ہم آنے والے مہینوں اور ہفتوں میں بڑی سیاسی پیشرفت دیکھیں گے ۔ایک چیز اہم اور شریفوں اور (ن)لیگ کے سیاسی بیانیے میں تبدیلی ہوئی ہے، جو کہ کبھی مسلم لیگ کے سیاسی کلچر کا حصہ نہیں رہا ۔سوال یہ بنتا ہے کہ اگلا چیئرمین سینیٹ کون اور کس پارٹی کا ہوگا،یہ آسان نہیں ہے کہ جیسےپارٹی کی بنیادی طاقت پر دکھتی ہے ۔

سینئر صحافی مظہر عباس کا تجزیہ 5 مارچ 2018 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا

مزید خبریں :