ڈاکٹر جاوید ارشد — جھلسے اور مسخ شدہ جسموں کو نئی زندگی دینے والا مسیحا

ڈاکٹر جاوید ارشد 'اسمائل اگین فاؤنڈیشن' کا حصہ ہیں—۔

انسان اور اس کے اعضاء کی تخلیق قدرت کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے انسان کا کوئی عضو ناکارہ یا مسخ ہوجائے یا کردیا جائے تو اسے دوبارہ خوبصورت بنانے کے لیے بھی اللہ رب العزت نے اس دنیا میں کچھ مسیحا مقرر رکھے ہیں۔

ان ہی مسیحاؤں میں سے ایک آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر جاوید ارشد بھی ہیں، جن کا شمار میڈیسن کے شعبے میں پاکستان کے 4 پی ایچ ڈی ڈاکٹروں میں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر جاوید ارشد 'اسمائل اگین فاؤنڈیشن' کا حصہ ہیں اور گرافٹنگ اور پلازمہ تھراپی کے ذریعے تیزاب سے مسخ شدہ چہروں اور آگ سے جھلسے ہوئے جسموں کو دوبارہ خوبصورت بنانے میں سرگرم عمل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں انسانی اعضاءکے عطیات کی آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ انسانی جلد کو عطیہ کرنے کے حوالے سے بھی شعور بیدار کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر جاوید کے کلینک پر ہماری ملاقات فاطمہ منیر سے ہوئی، جو 4 سال پہلے اپنی بیٹی کو داماد کے ہاتھوں تیزاب سے بچاتے ہوئے خود جھلس گئی تھیں۔

تیزاب سے جھلس جانے والی خاتون فاطمہ منیر—۔فوٹو / شیما صدیقی

تیزاب سے ان کا چہرہ، گردن، ہاتھ اور سینہ متاثر ہوا تھا، شروع میں انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ زندہ بچ سکیں گی، جب انہیں ہوش آیا تو ان کے ہونٹ جل کر مکمل طور پر غائب ہو چکے تھے۔ چہرے کی جلد جھلس کر گردن سے جا لگی تھی اور ہاتھ بچے ہی نہیں تھے، بقول فاطمہ وہ خود بھی اپنے آپ سے ڈر جاتی تھیں۔

پھر کسی نے ان کو 'اسمائیل اگین فاؤنڈیشن' تک پہنچا دیا، جہاں ان کی کئی سرجریز ہوئیں۔

فاطمہ کہتی ہیں، 'اللہ کا شکر ہے، اب میں ہاتھ ہلا سکتی ہوں اور چیزیں پکڑ سکتی ہوں'۔

ہم نے فاطمہ کی پلاسٹک سرجری اور گرافٹنگ سے پہلے کی تصاویر دیکھیں، اب بھی انہیں مزید سرجریز سے گزرنا ہے اور اگرچہ وہ بالکل پہلی جیسی صورت تو حاصل نہیں کرپائیں گی، لیکن فاطمہ اپنے علاج پر مطمئن ہیں۔

طریقہ علاج

ڈاکٹر جاوید نے بتایا کہ گرافٹنگ سرجری میں استعمال ہونے والی انسانی کھال باہر سے منگوائی جاتی ہے۔ یہ جلد کی اندرونی تہہ ہوتی ہے۔ اگر زخم بڑا ہو اور کھال کم تو اس کھال کی تہہ کو چمڑے کی طرح کھینچ کر پتلا کر لیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ جلی اور جھلسی ہوئی جلد کے زخموں کو 8،9 مہینے سے پہلے نہیں چھیڑتے کیونکہ جلنے، بیرونی السر اور کسی بھی بیرونی زخم کو بہتر ہونے اور پلاسٹک سرجری کے مراحل سے گزرنے کے لیے اتنا وقت درکار ہوتا ہے۔

دوسری جانب پلازمہ تھراپی (پی آر پی) طریقہ علاج نے انسانی اعضا کی پیوند کاری اور جھلسی ہوئی جلد کی دوبارہ بحالی میں پلاسٹک اور آرتھوپیڈک سرجریز سے بہتر نتائج حاصل کیے ہیں۔

اس میں پہلے انسانی خون سے ریڈ کارپلیسز کو الگ کر لیا جاتا ہے اور پھر پلیٹ لیٹس سے بھرے پلازمہ سیل تیار  کیے جاتے ہیں، جن میں نمو کی بہترین صلاحیت ہوتی ہے ۔

برن وارڈ میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری:

ڈاکٹر جاوید ارشد کے مطابق کسی بھی حادثاتی صورت حال میں برن وارڈ میں تین اہم باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

نمبر 1:  زخم تیزاب کا ہو یا آگ کا، مریض کے جسم میں سب سے پہلے ایسڈ بیس توازن لانا ضروری ہے۔

نمبر 2: جھلسے ہوئے جسموں میں ٹشوز اور مسلز جل کر مائیو گلوبین کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ جاتے ہیں اور جب ان کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے تو یہ ٹشوز خون میں شامل ہو کر گردوں تک پہنچ جاتے ہیں اور گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اس لیے دوسرا اہم کام گردے فیل ہونے سے بچانا ہے۔

نمبر 3: ڈاکٹر کو چاہیے کہ انفیکشن کو کنٹرول کریں۔ جھلسے ہوئے مریضوں میں انفیکشن پھیلنے میں دو ہفتے لگتے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید ارشد سمجھتے ہیں کہ ہمارے برن سینٹرز میں سہولیات کا فقدان ہے ۔ لیکن اگر ایک برن یونٹ میں 60 مریضوں میں سے 40 کی موت واقع ہو جائے تو اسپتال انتظامیہ کی عدم توجہ اور غفلت کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ڈاکٹر جاوید اشرف کا شمار میڈیسن کے شعبے میں پاکستان کے 4 پی ایچ ڈی ڈاکٹروں میں ہوتا ہے—فوٹو/شیما صدیقی

ڈاکٹر جاوید ارشد نے 70 اور 80 فیصد جھلسے ہوئے مریضوں کے بارے میں بتایا کہ ڈاکٹروں نے انسانی جسم کو نمبروں میں بانٹ رکھا ہے۔ جسم کے جتنے حصے آگ سے متاثر ہوں گے، ان کے نمبروں کو جمع کرکے فیصد میں شمار کر لیا جاتا ہے، جیسا کہ ہاتھوں اور پیروں کو نو نمبر دیئے گئے ہیں۔

فرسٹ ڈگری اور سیکنڈ ڈگری برن اصطلاح کے بارے میں ڈاکٹر جاوید ارشد کا کہنا تھا کہ اگر صرف انسانی کھال جلتی ہے تو اسے فرسٹ ڈگری برن کہا جاتا ہے۔ جلد کے ساتھ اگر پٹھے (مسلز) بھی جل جائیں تو یہ سیکنڈ ڈگری برن کہلائے گا لیکن اگر پٹھوں کے ساتھ ساتھ جسم بھی جھلس کر آگ ہڈی تک آجائے تو ایسے مریض کو تھرڈ ڈگری برن کہا جاتا ہے۔

اتفاقی حادثات پر تو کسی کا زور نہیں لیکن جب ہمارے معاشرے میں خاندانی چپقلش اور بدصورت انسانی رویوں کے باعث متعدد بہنیں، بیٹیاں اور بہوئیں ابدی نیند سلادی جائیں یا ان کے چہروں کو تیزاب سے جھلسا دیا جائے تو ان مسخ شدہ جسموں کو نئی زندگی دینے والے ہاتھ یقیناً عظیم ہیں۔

مزید خبریں :