پاکستان

انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم، فاروق ستار ایم کیوایم کنوینرنہیں رہے: الیکشن کمیشن


اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی کنوینرشپ  کے تنازع سے متعلق دائر درخواستوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ فاروق ستار پارٹی کے کنوینر نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم پاکستان بہادرآباد گروپ کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے فاروق ستار کی کنوینرشپ سے متعلق محفوظ کردہ مختصر فیصلہ سنایا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کا عکس—۔جیو نیوز

یاد رہے کہ پارٹی قیادت کے تنازع پر ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں دھڑوں بہادر آباد اور پی آئی بی گروپ نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے خالد مقبول صدیقی اور کنور نوید جمیل کی درخواستیں منظور کرلیں جب کہ فاروق ستار کی جانب سے کرائے جانے والے انٹرا پارٹی انتخابات کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔

الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم پاکستان کی جنرل ورکرز اسمبلی کی قرارداد بھی مسترد کرتے ہوئے فاروق ستار کی الیکشن کمیشن کے اختیار سماعت سے متعلق درخواست بھی مسترد کردی۔

خیال رہے کہ کنوینرشپ کے تنازع پر ہونے والی 4 سماعتوں کے دوران دونوں گروپوں کے وکلا کی جانب سے دلائل دیے گئے جس کے بعد الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے گزشتہ سماعت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کا فیصلہ سیاہ اور غیر منصفانہ ہے، فاروق ستار

دوسری جانب فاروق ستار نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اپنی کنوینر شپ کے خلاف دیئے گئے فیصلے کو سیاہ، غیر منصفانہ اور غیر آئینی قرار دے دیا۔

اسلام آباد میں ایم کیو ایم پاکستان (پی آئی بی) کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ماضی میں مولوی تمیز الدین خان کیس کا فیصلہ جسٹس منیر نے دیا تھا، اسی طرح اور بہت سے عدالتی فیصلے پاکستان کی تاریخ میں ہوئے ہیں، جن کا آج تک حوالہ دیا جاتا ہے۔

فاروق ستار نے کہا کہ 'میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ جسٹس منیر کے فیصلے کی طرح جسٹس (ر) سردار رضا اور ان کے 4 یا 5 رکنی الیکشن کمیشن نے جو فیصلہ دیا ہے، وہ پاکستان کے انتخابی یا الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے حوالے سے سیاہ فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ انٹرا پارٹی تنازع پر فیصلہ دینا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے، 'میرے منشور کی تشریح الیکشن کمیشن نہیں کرسکتا، یہ کام ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کرسکتی ہے۔'

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ 'مجھے 23 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم کے خلاف کھڑے ہونے کی سزا دی گئی ہے'۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'اس فیصلے کا مقصد مائنس ون نہیں بلکہ ایم کیو ایم کا خاتمہ ہے، الیکشن کمیشن نے باقی سب کو عدالت بھیجا ہمیں گھر بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے'۔

فاروق ستار نے کہا کہ 'ایم کیو ایم کے کارکنوں اور ووٹرز سے پتنگ چھین کر بہادرآباد کے ساتھیوں کو دی گئی ہے جبکہ کارکنوں کی اکثریت بہادرآباد والوں کے ساتھ نہیں ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'آج کے فیصلے سے مجھے 9 نومبر 2016 کے فیصلے کی بھی سزا دی گئی، جب میں نے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کی تھی'۔

اس سے قبل فاروق ستار کا کہنا تھا کہ بہادرآباد والوں کا دعویٰ ہے کہ 'مجھے رابطہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے ہٹایا ہے، میری آئینی پوزیشن جو بھی ہے اس میں نہیں الجھنا چاہیے'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'آپس کے تنازع سے ایم کیو ایم کو نقصان ہوا اور مزید بھی ہوگا، ایک دوسرے کی پوزیشن کو بے شک نہ مانا جائے لیکن چیلنج بھی نہ کریں'۔

فاروق ستارنے مزید کہا تھا کہ 'ہمیں ایک سیاسی اور تنظیمی راستہ نکالنا چاہیے اور درمیانی راستہ یہی ہے کہ میں اور خالد مقبول ایک ایڈہاک کمیٹی بنالیں'۔

ایم کیو ایم پاکستان کا تنظیمی بحران

رواں برس فروری کے آغاز میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار کی جانب سے کامران ٹیسوری کا نام سینیٹ امیدوار کے طور پر سامنے آنے پر پارٹی میں اختلافات نے سر اٹھایا جو بحران کی صورت میں تبدیل ہوگیا۔

رابطہ کمیٹی نے کامران ٹیسوری کی رکنیت معطل کی تو فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کو معطل کردیا، بعدازاں سینیٹ انتخابات کے لیے فاروق ستار گروپ اور رابطہ کمیٹی اراکین کی جانب سے الگ الگ کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔

اور اسی دوران رابطہ کمیٹی نے پارٹی سربراہ فاروق ستار کو قیادت سے نکال دیا اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو بھی خط لکھا گیا جسے بعدازاں واپس لے لیا گیا۔

قیادت کی اس جنگ میں فاروق ستار کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کا اعلان کیا گیا، جس کے نتیجے میں فاروق ستار بھاری اکثریت سے ایم کیو ایم کے کنوینر منتخب ہوئے، جسے بہادرآباد دھڑے نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔

اور آج الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے پی آئی بی گروپ کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا اور فیصلہ سنایا کہ فاروق ستار اب ایم کیو ایم پاکستان کے کنونیر نہیں رہے۔

مزید خبریں :