14 جون ، 2018
'یہ رمضان اور اب عید کی تیاری، مجھے بالکل الگ دنیا کی باتیں لگ رہی ہیں، میں 20 سال بعد آزاد فضا میں سانس لے رہی ہوں۔ ایک آزاد شہری کی حیثیت سے میں نے یہ رمضان جیل سے باہر گزارا ہے، کچھ سمجھ نہیں آرہا'۔
یہ الفاظ ہیں اسماء نواب کے، جنہیں 20 سال بعد حالیہ اپریل میں قتل کیس میں بے گناہ ثابت ہونے پر کراچی سینٹرل جیل سے رہا کیا گیا۔
سعود آباد ملیر کی اسماء نواب کا کیس چند اہم ترین کیسوں میں سے ایک تھا، جس کی بازگشت ان کی رہائی پر ایک بار پھر سنی گئی۔ اسماء پر جنوری 1999 میں اپنے والدین اور بھائی کے تہرے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ان پر کیس چلا اور پھر اسماء اور دیگر 2 ملزمان کو پھانسی کی سزا سنادی گئی۔
اسماء کے وکیل جاوید چھتاری نے سزا کو پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اسماء کی اپیلیں 20 سال تک سپریم کورٹ میں چلتی رہیں اور پھر 2 اپریل 2018 کو اسماء اور دیگر دونوں ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنا پر تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔
جاوید چھتاری کہتے ہیں کہ 'یہ کیس طویل اور تھکا دینے والا تھا۔ انصاف کی راہ میں اہم رکاوٹ 'عدالتی نظام کا سقم' ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسماء کے کیس میں بھی کبھی ایک بینچ ٹوٹتا تو کبھی دوسرا، کبھی جج تبدیل ہوجاتے اور پھر نئے جج کے آنے تک کا انتظار، ان ہی باتوں کی وجہ سے بہت وقت ضائع ہوا'۔
اسماء نے بھی جاوید چھتاری کی تائید کرتے ہوئے سوال کیا کہ جیل میں گزرے ان کے 20 سالوں کا حساب کون دے گا؟ میڈیا، معاشرہ، تفتشی افسر یا عدالتی نظام؟
گفتگو کے دوران رمضان، عید اور شاپنگ کے حوالے سے سوال پر اسماء کے سنجیدہ چہرے پر پہلی مسکراہٹ آئی اور انھوں نے کہا، 'آزادی اچھی لگ رہی ہے۔ اتنے سالوں بعد شاپنگ مال جانا اچھا لگا، لیکن اتنا رش، دکانیں اور ہر طرف لوگوں کو دیکھ کر گھبراہٹ بھی ہوئی۔ میرے ہاتھ میں پیسے تھے اور اپنی پسند سے عید کے کپڑے لینے کا شوق بھی، لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا خریدوں اور کیا نہیں۔ میں ریسٹورنٹ بھی گئی اور وہاں برگر بھی کھایا'۔
ماضی کو یاد کرتے ہوئے کھوئے کھوئے سے انداز میں اسماء نے بتایا، 'ہم جیل میں رمضان، عید الفطر اور بقرعید سب ساتھ مل کر مناتے تھے۔اکثریت روزہ دار ہوتی تھی۔ سحری کے ٹفن باکسز 3 بجے آجاتے اور افطار بھی باہر سے آتی تھی۔کبھی کبھی ہم خواتین مل کر شربت، چاٹ اور پکوڑے بنا لیتی تھیں'۔
مجھے رہائی کے پہلے دن سمندر پر سورج غروب ہوتے دیکھنا بہت اچھا لگا۔ سمندر تو کبھی بچپن میں دیکھا تھا یا اب 20 سال بعد دیکھا۔
انہوں نے بتایا کہ جیل میں رمضان کے دوران بڑی گہما گہمی رہتی تھی، کیونکہ لوگ اور این جی اوز صدقہ و خیرات لے کر کراچی جیل آتے ہیں۔کبھی کوئی دورے پر آرہا ہے تو کبھی کوئی بڑی شخصیت۔ 'میں پرانی قیدی ہونے کی وجہ سے منشی اور بیرک انچارج تھی، لہذاعید پر آنے والے گفٹس کی تقسیم کے لیے ایک فہرست مرتب کرنی ہوتی تھی، جس کے لیے باقاعدہ ایک رجسٹر تھا، جس میں بچوں، لڑکیوں اور خواتین کے نام اور عمر وغیر لکھی جاتی تھی، پھر سب سے دستخط لینا بھی میری ذمہ داری تھی'۔
اسماء نے یاد کرتے ہوئے بتایا، 'عید پر چھٹی ہونے کی وجہ سے چاند رات کو ہی ملاقات کرا دی جا تی تھی یا پھر تیسرے دن، میری تو کوئی ملاقات آتی ہی نہیں تھی۔ ہاں 12 سال بعد ایک بار خالو ملنے آئے تھے۔ ہم باقاعدہ عید کی نماز پڑھتے لیکن باقی دن ٹی وی پر عید شو دیکھ کر وقت گزارتے یا انڈین ڈرامے دیکھتے'۔
ہماری گفتگو کا سلسلہ تھوڑی دیر رکا رہا۔ پھر آہستہ آواز میں اسماء نے کہنا شروع کیا، 'اب 20 سال بعد ہر چیز بدل گئی ہے۔ لوگ، انداز، لباس اور کھانے تبدیل ہو چکے ہیں۔ قیدیوں کے لیے باہر کی دنیا جیل میں آنے والی این جی اوز، رسالے اور ڈرامے تھے۔ صبح 7 بجے جیل کھلتی اور 5 بجے مکمل بند ہو جاتی تھی، قیدی سورج نکلتے اور غروب ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اسی وجہ سے مجھے رہائی کے پہلے دن سمندر پر سورج غروب ہوتے دیکھنا بہت اچھا لگا۔ سمندر تو کبھی بچپن میں دیکھا تھا یا اب 20 سال بعد دیکھا'، یہ کہتے ہوئے اسماء چپ سی ہوگئیں۔
کچھ ہی دیر بعد اس چپ کو ایک پر اعتماد اور مستحکم آواز نے توڑا، جب اسماء بولیں، 'ہمارے جیلیں 'ریفارمز سسٹم' کے تحت نہیں بنائی گئیں بلکہ سزا کے لیے بنائی گئی ہیں۔ خواتین جیل کا نظام اگر بہت اچھا نہیں تو بہت برا بھی نہیں۔ ایک بیرک میں 20، 30 خواتین ہوتی ہیں۔ میں قیدی خواتین کو درخواستیں لکھ کر دیا کرتی تھی، ان کے وہی عام سے مسائل ہوتے تھے،کسی کو اپنا بچہ چاہیے ہوتا تھا تو کسی کو گھر سے کچھ منگوانا ہوتا تھا'۔
اس دوران اسماء نے چائے کی پیالی اٹھائی اور چسکی لیتے ہوئے کہا کہ 'اگر آپ مثبت، مضبوط اور اللہ پر یقین رکھتے ہیں تو ہر کھٹن دور گزر جاتا ہے۔ میں بھی بہت دفعہ مایوس ہوئی۔ میرا خاندان ختم ہو چکا تھا، اس لیے جیل میں جو رشتے بنے وہ بہت گہرے اور دل کے قریب تھے، جیل میں میری سات سہلیاں بنیں، وہاں کچھ ایک دوسرے سے چھپا ہوا نہیں تھا'۔
تھوڑے تھوڑے جوش کے ساتھ اسماء نے بتایا، 'اس دوران بہت سے مرد اور خواتین سپرنٹنڈٹ جیل آئے، لیکن شیبا شاہ کے آنے سے بہت حوصلہ ملا۔ وہ خود قیدیوں سے ان کے مسائل جانتیں، یہ ان کا دیا ہوا اعتماد ہی تھا کہ میں نے قرآن اور کمپیوٹر کورس بھی کیا اور ناصر اسلم زاہد صاحب کے وکلاء سے قانون کی کلاسیں بھی لیں تاکہ قوانین سے واقفیت ہوسکے۔ دیگر خواتین سلائی کڑھائی اور بیوٹی پالر کی ٹریننگ بھی لیتی ہیں، جیل میں ایک کلینک بھی ہے اور ڈاکٹر بھی، ہاں ایمبولینس ٹھیک نہیں!'
میں بھی بہت دفعہ مایوس ہوئی۔ میرا خاندان ختم ہو چکا تھا، اس لیے جیل میں جو رشتے بنے وہ بہت گہرے اور دل کے قریب تھے
انہوں نے بتایا کہ جیل میں ایک چھوٹی سی لائبریری بھی بنائی گئی ہے، جہاں چند کتابیں، میگزین اور ڈائجسٹ موجود ہوتے ہیں۔ اسماء نے بتایا کہ وہ اخبارِ جہاں باقاعدگی سے پڑھتی تھی اور انہوں نے نمرہ احمد کا ناول جنت کے پتے بھی شوق سے پڑھا۔
ہاتھ میں پکڑے اسمارٹ فون کی طرف دیکھتے ہوئے اسماء نے بتایا کہ اسے چلانا سیکھ رہی ہوں۔جب میں جیل گئی تو لینڈ لائن ٹیلی فون تھے لیکن اب بچوں کو تیز تیز ہاتھ چلاتے دیکھتی ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ ہاں معلوم تھا کہ موبائل، انٹرنیٹ اور اسکائپ سے بات ہو تی ہے، کیونکہ جیل میں کبھی کبھی خواتین کے پاس سے موبائل نکل آتا تھا تو شور مچ جاتا تھا۔
جب صیاد سے مانوس ہوگئے تو رہائی ملی!
اپنی رہائی کے وقت کے تاثرات شیئر کرتے ہوئے اسماء نے بتایا، 'اُس وقت کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اپنے گھر جانے کی ہمت بھی نہیں تھی۔گھر گئی، وہاں کچھ نہیں رہا ، بس درودیوار ہیں۔ گھر تو مکینوں سے ہوتا ہے۔ پڑوس کی ایک دو خواتین ملنے بھی آئیں، لیکن مجھ سے وہاں رہا ہی نہیں گیا'، یہ کہتے ہوئے اسماء کی آواز ہلکی سی کپکپائی اور آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔
پھر تھوڑے وقفے کے بعد ایک پر عزم آواز نے سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں ٹوٹا تھا۔ اسماء نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ مستقبل میں وہ اپنے گھر سے ہی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کا آغاز کریں گی، لیکن پہلے انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے، انہیں افسوس ہے کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ سکیں۔
اسماء جب جیل گئیں تو ایک 20 سال کی نوجوان لڑکی تھیں اور جب ان کو رہائی ملی تو وہ ایک پختہ عمر کی خاتون میں ڈھل چکی ہیں۔ سوال چھبتا ہوا ضرور ہے لیکن اسماء کے دل کی آواز ہے کہ آخر ان کا قصور کیا تھا جو ان کی زندگی کے 20 اہم ترین سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر گئے؟ اصل قاتل کون تھے؟ کیا ان کو قاتل نامزد کرنے میں ہمارا معاشرہ پیش پیش نہ تھا؟ کیا ہماری حکومتوں کی ذمہ داری نہیں کہ محکمہ پولیس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی نظام میں بھی بہتری لائی جائے، جہاں جلد اور فوری انصاف ملے۔
صد شکر کہ اسماء کو 20 سال بعد ہی سہی انصاف تو ملا۔ اب وہ اپنی زندگی سے شکووں شکایتوں اور مایوس کن باتوں کو نکال کر پھینک چکی ہیں اور اپنی زندگی کو بہتر اور مثبت انداز میں گزارنا چاہتی ہیں۔