25 جون ، 2018
ہم میں سے اکثر لوگوں نے 'یہاں ہر مال ملے گا' کی گونج ضرور سنی ہوگی، پہلے پہل یہ 'ہر مال' دو آنے میں ملتا تھا، رفتہ رفتہ یہ رقم بڑھتی رہی اور اب تو 'ہنڈریڈ روپیز شاپ' کا زمانہ بھی ختم ہوا چاہتا ہے۔
سستا اور معیاری سامان ہر ایک کو اچھا لگتا ہے۔ دو آنے میں نہ سہی لیکن اب بھی کراچی کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بیرون ملک سے آنے والا پرانا سامان انتہائی ستے داموں مل جاتا ہے۔
سب سے زیادہ مشہور ڈیفنس کا اتوار بازار ہے، لیکن صدر ایمپریس مارکیٹ کے قرب و جوار کے دکاندار بھی پورے ہفتے اپنے گاہکوں کی راہ تک رہے ہوتے ہیں، جہاں آپ کو سوئی دھاگے سے لے کر چھوٹے موٹے جہاز کے پرزوں تک سب کچھ ٹھیلوں پر بکتا ہوا مل جائے گا۔
اگر کسی کا اچانک سے بیرون ملک سفر کرنے کا پروگرام بن جائے تو اچھے اور سستے گرم کپڑوں کی شاپنگ کے لیے اس سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہوگی، جہاں بڑی بڑی یورپی گارمنٹس کمپنیوں کے بہترین گرم اور اونی کپڑے، جوتے اور دیگر سامان آپ کو سر راہ سستے داموں مل جائے گا۔
اسی طرح اگر آپ کے بیٹے نے کار اور اسپائیڈر مین سے کھیلنے کی فرمائش کر دی ہے یا بیٹی کو باربی اور اس کا مکمل کچن سیٹ چاہیے تو ایک بار یہاں کا چکر ضرور لگائیں۔ یہاں ہماری ملاقات احسن صاحب سے ہوئی جو اپنے بیٹی کے لیے کوئی اسٹف ٹوائے (Stuffed Toy) لینے آئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر دفعہ تو نہیں لیکن اکثر کام کی چیزیں یہاں سے مل جاتی ہیں۔
اگر آپ گلی محلے میں کھلنے والے کسی 'انگلش میڈیم' اسکول کے مالک ہیں تو پلے گروپ کے لیے رنگین اور طرح طرح کے کھلونے، لائبریری کے لیے کتابیں، چارٹس اور پوسٹرز وغیرہ بھی یہاں سے کم قیمت پر حاصل کرسکتے ہیں۔
یہیں پر ڈائری کی شوقین ایک خاتون سے بھی ملاقات ہوئی، جنہوں نے بتایا کہ انہیں بہترین کاغذ اور خوبصورت ڈیزائن کی حامل ڈائریز یہاں سے باآسانی مل جاتی ہیں۔
عام تصور ہے کہ ان بازاروں میں صرف کم آمدنی والے افراد آتے ہیں، لیکن اکثر شام کو دفتروں سے واپسی پر ایک چکر لگاتے اور کام کی چیزیں اٹھاتے کئی ملٹی نیشنل کے پروفیشنل افراد بھی آپ کو یہاں ملیں گے۔ کسی کو اچھی سی شرٹ چاہیے تو کسی کو جوگرز، کوئی لیدر جیکٹ لینے آیا ہے تو کوئی کسی اور چیز کی جستجو میں ان ٹھیلوں کے اردگرد منڈلاتا نظر آتا ہے۔
یہی نہیں اگر آپ ری اسمبلڈ اور کمپوٹر ہارڈ ویئر سے منسلک ہیں تو یہاں آپ کو اپنے مطلب کی کئی چیزیں مل جائیں گی، بس ذرا تلاش کرنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔ ان ٹھیلوں پر موبائل اور لیپ ٹاپ چارجرز کے ساتھ ساتھ بیٹریز، اسپیکرز، مائیک،کی بورڈ، ایئر فون، پلگ، اسکرو، اسکرین پروٹیکٹر ، لیپ ٹاپ بیگ، غرض اسی طرح کی دیگر کارآمد اشیاء بھی رکھی مل جائیں گی۔
گھر سے متعلق جن جن چیزوں کا آپ تصور کر سکتے ہیں، وہ ان ٹھیلوں پر دستیاب ہیں۔ اس میں چھوٹی بڑی مشینوں کی کوئی قید نہیں، جیسے گرائنڈر، مکسر، بیٹر اور اون وغیرہ۔ الیکٹرونک کا سامان یہاں چلا کر بیچا جاتا ہے، لیکن خیال رہے کہ ان چیزوں کا پائیدار ہونا اگرچہ مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔
ایک کراکری کے ٹھیلے پر مسز رحمان اور ان کی بیٹی سے بات چیت ہوئی، جن کا کہنا تھا کہ یہاں چینی کے برتن اچھے مل جاتے ہیں، کبھی کبھی یہاں سے اچھا ٹی سیٹ اور ڈنر سیٹ تو کبھی بہترین قسم کی میڈ اِن انگلینڈ سرونگ پلیٹیں بھی مل جاتی ہیں۔
مسز رحمان کی بیٹی نے ایک ٹھیلے سے مشہور برانڈ کے گلاسز خریدے تھے، جو ہمیں بھی دیکھنے میں بالکل نئے لگے۔
یہ سامان آتا کہاں سے ہے؟ اور کیا یہ منافع بخش کاروبار ہے؟ ان سوالوں کا جواب ہمیں قلعہ عبد اللہ سے تعلق رکھنے والے رحمت اللہ اچکزئی سے ملا، جو کئی سالوں سے یہ کاروبار کر رہے ہیں اور اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، 'زیادہ تر سامان دبئی ،امریکا، جاپان اور یورپی ممالک سے آتا ہے۔ وہ یہ اسٹاک شیر شاہ سے اٹھاتے ہیں۔ اب یہ ان کی قسمت کہ اس میں سے کیا نکلتا ہے۔ کبھی نقصان ہوتا ہے تو کبھی فائدہ'۔
رحمت اللہ نے بتایا، 'یہ سامان کوڑے کی طرح ہوتا ہے، ہم چھانٹی کرتے ہیں، مشینیں ٹھیک کرواتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کسی کے پاس جوسر کا جگ ہے تو میرے پاس اسی کمپنی کا ڈھکنا تو ہم وہ جوسر بھی اسی کو دے دیتے ہیں، اس سے مشین کی قیمت بڑھ جاتی ہے'۔
ایک اور دکاندار سلیم نے خریداروں کی ترجیحات کے حوالے سے بتایا کہ 'یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ انہیں کیا چاہیے، کوئی کانچ لینے آتا ہے تو کوئی برتن، کوئی مشین دیکھتا ہے تو کوئی گفٹ آئٹم'۔
پردوں اور کپڑوں کو جھاڑتے اور ترتیب سے رکھتے ہوئے کریم صاحب نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ 'اس سامان سے ان کے بھائی کو سونے کے بٹن ملے تھے۔ ایک بار چاندی کا بروچ اور کئی قیمتی زیور بھی مل چکے ہیں جبکہ متعدد بار موبائل اور قیمتی گھڑیاں بھی مل چکی ہیں، کبھی کسی کوٹ کی جیب سے کرنسی بھی مل جاتی ہے'۔
اس مارکیٹ کا 10 سالہ تجربہ رکھنے ولے عبدالقاسم صاحب کا کہنا ہے کہ قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے کوئی سیٹھ پورا اسٹاک اٹھا لیتا ہے اور پھر الگ الگ آدمیوں کو آگے بیچ دیتا ہے، اس طرح سیٹھ کو منافع زیادہ ہوتا ہے اور کبھی کئی افراد مل کر اسٹاک اٹھاتے ہیں، جس میں نقصان اور فائدہ میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شیر شاہ کی مارکیٹ سے جب سامان اٹھایا جاتا ہے تو سب سے پہلے چھانٹی کی جاتی ہے۔ چیزوں کی قیمت کا اندازہ اس کی ضرورت، درستگی اور کمپنی کے نام پر ہوتا ہے۔ کمپنی جتنی اچھی اور مشہور ہوگی، چیز بھی اتنی ہی پائیدار ہوگی اور ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ گاہکوں سے بھی گزارش ہے کہ ہر چیز کو چھان پھٹک کر دیکھ لیں اور بارگیننگ کا مارجن رکھ کر بھاؤ تاؤ کریں۔
یہاں سب دکاندار ہر آئٹم کی قیمت اور اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں ٹھیلوں پر موجود چھوٹے بچے سے مول تول کرتے ہوئے بھی ان کو جھانسا نہیں دیا جاسکتا، وہ جس معصومیت اور چابک دستی کے ساتھ پرانا مال بیچ رہے ہیں اور جو خوبیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، وہ یقیناً ہر مارکیٹنگ منیجر کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔