21 جولائی ، 2018
کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے راؤ انور کے رہائی کے احکامات پر دستخط کیے جانے کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔
کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دو مقدمات میں راؤ نوار کے ریلیز آرڈر جاری کئے تھے جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے انہیں رہا کردیا گیا۔
نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی جعلی پولیس مقابلے، دھماکا خیز مواد رکھنے اور غیر قانونی اسلحہ کیس میں ضمانت ہوچکی ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم کی ایک ضمانت 10 جولائی اور دوسری 20 جولائی کو منظور کی جب کہ 10،10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
ملزم کی جانب سے ضمانتی مچلکے جمع کرائے جانے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے راؤ انور کی رہائی کے احکامات پر دستخط کیے۔
عدالت کے دستخط کے بعد جیل حکام کو راؤ انوار کی دونوں مقدمات میں رہائی کا حکم نامہ بھیجا گیا۔
خیال رہے کہ عدالت کی جانب سے راؤ انوار کو جیل بھیجنے کے احکامات کے بعد محکمہ داخلہ نے ان کی رہائش گاہ کو ہی سب جیل قرار دیا تھا۔
اب عدالت کی جانب سے راؤ انوار کی رہائی کے احکامات ملتے ہی ان کی رہائش گاہ پر تعینات پولیس کے اہلکاروں کو ہٹا لیا گیا ہے۔
نقیب اللہ قتل کیس
13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
نقیب اللہ کے والد خان محمد نے واقعے کا مقدمہ درج کرایا تھا جس میں راؤ انوار کو نامزد کیا گیا تھا۔ پولیس کے اعلیٰ افسران پر مشتمل کمیٹی نے معاملے کی تحقیقات کرکے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیاتھااور نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دے کر پولیس افسر کی گرفتاری کی سفارش کی تھی۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر از خود نوٹس لیا گیا تھا۔
ملزم راؤ انوار کچھ عرصے تک روپوش رہے تاہم 21 مارچ کو وہ اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے جہاں عدالت نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔