17 اگست ، 2018
کراچی سے 2014 میں 10 سال کی عمر میں اغوا ہونے والی لڑکی ام حبیبہ چار سال سے سکھر کے دارلامان میں مقیم ہے، لیکن اسے نہ اپنے گھر کا پتہ ہے اور نہ ہی والدین کا۔ لڑکی کے اغوا کار چار سال قبل ہی باعزت طور پر بری ہوگئے لیکن عدلیہ، پولیس اور انتظامیہ سمیت تمام متعلقہ اداروں کی مجموعی ناکامی کی قیمت امہ حبیبہ کے بچپن نے ادا کی ہے۔
اغوا کاروں کے چنگل سے بازیاب ہونے والی 14 سالہ امہ حبیبیہ چار سال سے اپنے والدین کے پاس جانے کی منتظر ہے، وہ کراچی کی رہنے والی ہے، لیکن اسے جگہ کا نام یاد نہیں ہے۔
اس بات کا انکشاف اُس وقت ہوا جب سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے جسٹس صلاح الدین پنہور نے رواں برس جولائی میں دارالامان سکھر کا دورہ کیا۔
معصوم ام حبیبہ کو دارالامان میں دیکھ کر جسٹس صلاح الدین نے بچی کے والدین سے متعلق پوچھا اور تسلی بخش جواب نہ ملنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو عدالت طلب کرلیا۔
7 اگست کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس عدنان اقبال چوہدری پر مشتمل سندھ ہائی کورٹ کے سابقہ دو رکنی بینچ کو بتایا گیا کہ 14 سالہ بچی امہ حبیبہ کو 2014 میں کراچی سے اغوا کیا گیا، کیس میں نامزد ملزمان چار سال قبل ہی باعزت طور پر بری ہوگئے، جس کے بعد بچی کو دارالامان منتقل کردیا گیا، والدین کو ڈھونڈا گیا مگر کچھ پتا نہیں چلا۔
جس پر عدالت نے تحریری ریمارکس دیئے کہ جوڈیشری، پولیس اور ایڈمنسٹریشن سمیت تمام متعلقہ اداروں کی مجموعی ناکامی کی قیمت معصوم امہ حبیبہ ادا کر رہی ہے، لہذا بچی کے والدین کو فورا ڈھونڈا جائے۔
16 اگست کو اس کیس کی دوبارہ سماعت جسٹس اقبال مہر اور جسٹس امجد علی سہتو نے کی۔
اس موقع پر عدالت نے بچی کے والدین کو نہ ڈھونڈنے پر متعلقہ اداروں پر برہمی کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ امہ حبیبہ کے والدین کی تلاش کے لیے فوری طور پر اخبارات میں اشتہارات دیئے جائیں اور بچی کو ہر حال میں اس کے والدین تک پہنچا کر رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔