پاکستان
Time 24 ستمبر ، 2018

العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کو 3 دن کا استثنیٰ، خواجہ حارث کی واجد ضیاء پر جرح

نیب نے احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے تھے، جن میں سے ایک میں انہیں سزا سنائی گئی، جسے حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کیا—فائل فوٹو

اسلام آباد: احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 3 دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ دے دیا، دوسری جانب نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر جرح جاری رہے۔

احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔

آج سماعت کے آغاز پر خواجہ حارث نے نواز شریف کی حاضری سے 5 روز استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جیل سے رہائی کے بعد نواز شریف کو ایڈجسٹ کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔

خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ 'نواز شریف اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے باعث بھی دکھ اور کرب میں مبتلا ہیں، لہذا انہیں 5 روز حاضری سے استثنیٰ دیا جائے تاکہ وہ غم کی کیفیت سے باہر آسکیں'۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ 'ٹرائل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، ہم یہاں موجود ہیں'۔

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'قانون غیر معمولی حالات میں حاضری سے استثنیٰ دیتا ہے'۔

جس پر جج احتساب عدالت نے کہا کہ 'نواز شریف کو ابھی 3 دن کا استثنیٰ دے دیتے ہیں'۔

خواجہ حارث کی جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح 

سماعت کے دوران خواجہ حارث کی جرح کا جواب دیتے ہوئے واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 6 میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے اکاؤنٹس کی اسٹیٹمنٹ دے رکھی ہے، لیکن یہ درست ہے کہ ان دستاویزات پر متعلقہ بینک آفیسر یا کسی اور کی مہر نہیں۔

واجد ضیاء نے مزید بتایا کہ یہ درست ہے کہ والیم 6 میں دیئے گئے بنک چیکس کے ساتھ کوئی تصدیقی سرٹیفکیٹ نہیں لگایا گیا۔

جرح کے دوران خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے العزیزیہ اسٹیل کی خرید اور قرض کے معاہدوں سے متعلق سوالات کیے۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ 20 مارچ 2005کے بعد العزیزیہ اسٹیل کی فروخت کا ایک ترمیمی معاہدہ بھی ہوا، جس پر العزیزیہ اسٹیل کی طرف سے حسین نواز نے دستخط کیے۔

جج نے واجد ضیاء سے سوال کیا، اب تو آپ حسین نواز کے دستخط پہچانتے ہوں گے؟ 

واجد ضیاء نے جواب دیا کہ میں ایکسپرٹ تو نہیں لیکن حسین نواز کے دستخط پہچانتا ہوں۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا اس معاہدے کے تحت خریدنے  والے نے فروخت کرنے والے کو 3 چیک دینے تھے؟ 

واجد ضیاء نے جواب دیا کہ معاہدے کے مطابق 63 ملین سعودی ریال خریدنے والے نے دینے تھے، رقم 3 چیکس میں ایجنٹ کے ذریعے دی جانی تھی اور 3 چیکس نمبر بھی معاہدے میں درج تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 3 چیکس سے متعلق تفصیلات میں اپنے بیان میں عدالتی ریکارڈ پر لایا تھا۔

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جن دستاویزات سے متعلق سوال ہو رہے ہیں، وہ ریکارڈ پر لانے کی اجازت دی جائے۔

نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ سورس دستاویزات سے متعلق سوال نہ کریں یا پھر ریکارڈ پر لانے دیں۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں تو دوران تفتیش جے آئی ٹی کے نوٹس میں آنے والی باتوں کا پوچھ رہا ہوں۔

اس موقع پر احتساب عدالت نے حکم دیا کہ العزیزیہ اسٹیل کی فروخت اور قرض کےمعاہدوں کی دستاویزات ریکارڈ پر لائی جائیں۔

اس کے ساتھ ہی العزیزیہ اسٹیل سے متعلق معاہدوں کی فوٹو کاپیاں ریکارڈ کا حصہ بنا دی گئیں۔

واجد ضیاء نے جرح کے دوران بتایا کہ درست ہے کہ نواز شریف کا جےآئی ٹی کو بیان سنی سنائی باتوں پر تھا۔

انہوں نے بتایا کہ نواز شریف نےکہا ان کا خیال ہے کہ العزیزیہ اسٹیل کمپنی کے تین شئیر ہولڈر تھے، نواز شریف نے منافع کی تقسیم سے متعلق جواب بھی اسی طرح دیا اور بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ العزیزیہ کا خالص منافع شئیر ہولڈرز میں تقسیم ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی، جہاں خواجہ حارث واجد ضیاء پر جرح جاری رکھیں گے۔

مذکورہ کیس کی 19 ستمبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت پر وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، دوسری جانب عدالت نے 31 مئی 2017 کے ایم ایل اے کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تھا۔

نیب ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔

اس کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سنائی گئی تھی اور وہ اڈیالہ جیل میں قید تھے، تاہم 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے تینوں کی سزائیں معطل کرکے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔

واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور دیگر کی سزا معطلی اور بریت کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی اپیلیں زیرِسماعت ہیں۔

دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے، جو اس وقت زیرِ سماعت ہیں۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے، جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا تھا جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔

مزید خبریں :