05 اکتوبر ، 2018
کراچی : جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) نے تفتیش کا دائرہ سندھ حکومت تک پھیلا دیا۔
جے آئی ٹی نے سندھ حکومت کو لکھے گئے خط میں صوبائی حکومت کے زیراستعمال تمام بینک اکاؤنٹس کی 10 سالہ تفصیلات طلب کرلیں اور تفتیش کا دائرہ بیمار صنعتوں کی مالی امداد اور سرکاری ٹھیکوں تک پھیلا دیا۔
خط کے متن کے مطابق جے آئی ٹی نے سندھ حکومت سے دس سال میں ہونے والی کھربوں روپے کی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ مانگا ہے اور کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کے جس بینک میں بھی جو اکاؤنٹ ہے اس کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔
جے آئی ٹی کی جانب سے صوبائی حکومت کے زیر استعمال تمام اکاؤنٹس کی بینک اسٹیٹمنٹ متعلقہ افسر کے دستخطوں کے ساتھ مانگی گئی ہیں۔
خط میں میں کہا گیا ہے کہ 10 سال میں صوبے میں بیمار صنعتوں کو امداد اور ان کے ڈائریکٹرز کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔
جے آئی ٹی کی جانب سے 10 سال میں محکمہ آبپاشی اور کمیونیکشن ورکس کے ٹھیکوں کی تفصیلات بھی مانگی ہیں اور کہا گیا ہے کہ بتایا جائے 10 سال میں دونوں محکموں میں کتنی مالیت کے اور کتنے ٹھیکے دیے گئے۔
صوبائی حکومت کو لکھے گئے خط میں 10 سال میں دیے گئے تمام ٹھیکے، ٹھیکوں کے نام، پتے اور شناختی کارڈز کی تفصیلات تک مانگی گئی ہیں جب کہ خط میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر
ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔
ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔