22 اکتوبر ، 2018
اسلام آباد: جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی نے اپنی دوسری پیشرفت رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے عدالت میں انکشاف کیا کہ جعلی اکاؤنٹس سے شروع ہونے والا سلسلہ انتہائی پیچیدہ منی لانڈرنگ کی شکل اختیار کر چکا اور معاملہ ایک کھرب روپے سے زائد کے حجم تک پہنچ چکا ہے جب کہ سندھ حکومت تحقیقات میں تعاون نہیں کررہی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں مبینہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت ہوئی جس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی دوسری پیشرفت رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
دوران سماعت جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت میں انکشاف کیا کہ جعلی اکاؤنٹس سے شروع معاملہ انتہائی پیچیدہ منی لانڈرنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے، معاملہ ایک کھرب روپے سے زائد کے حجم تک پہنچ چکا، پیچیدہ طریقوں سے عام افراد اور مرحومین کے اکاؤنٹس میں رقوم منتقل کی گئیں، فالودہ فروش، رکشہ ڈرائیور کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے بھیجےگئے۔
سندھ حکومت متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کررہی: جے آئی ٹی سربراہ
جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ بعض افراد کی موت کے 2 سال بعد ان کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈالے گئے، 47 ارب روپے عام افراد جب کہ 54 ارب سے زائد رقوم کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں ڈالی گئیں اور سندھ حکومت تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہی، متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔
جے آئی ٹی سربراہ کے بیان پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی ہم سے 2008 سے حکومت کا کیا ہر معاہدہ مانگ رہی ہے، جے آئی ٹی کے دیئے 46 ناموں میں سے صرف 6 معاہدے ریکارڈ میں دستیاب ہوسکے ہیں، یہ کسی کمرے کو رنگ کرانے کے معاہدے کی بھی کاپی مانگ رہے ہیں، سارے سرکاری کنٹریکٹس کا ریکارڈ ایک جگہ پر موجود نہیں۔
چیف جسٹس 26 تاریخ کو کراچی آئیں گے
ایڈووکیٹ جنرل کے مؤقف پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس ہفتے 26 تاریخ کو کراچی آؤں گا، چیف سیکریٹری سمیت تعاون نہ کرنے والے تمام سیکریٹریز متعلقہ ریکارڈ سمیت حاضر ہوں، ریکارڈ نہ ملاتو دیکھیں گےچیف سیکریٹری اور دیگر افسران کے خلاف کیا کارروائی بنتی ہے۔
دوران سماعت انور مجید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انور مجیدکو دل کا عارضہ ہے، جیل ڈاکٹر نے انہیں اسپتال بھیجنے کی استدعا کی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے سندھ کے کسی ڈاکٹر کی رپورٹ پر اعتبار نہیں، جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ آپ کو پتہ ہے ایک صاحب کو پائلز ہے اور وہ اسپتال داخل ہو کر علاج کرا رہے ہیں، آپ کو معلوم ہے وہ کہاں ہوتے ہیں؟ وہ دن کو سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں اور رات کو اس کے گھر میں ہوتے ہیں۔
اومنی گروپ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید کو 1999 میں امریکا میں دل کا اسٹنٹ ڈالا گیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دل کی تکلیف ہے تو انہیں راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جائیں، اومنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ کیا وجہ ہےعدالت 77 سالہ آدمی کی میڈیکل رپورٹ پر یقین نہیں کرتی؟
عدالت نے انور مجید کو اسپتال منتقل کرنے کی استدعا مسترد کردی
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیوں یقین کریں وہ بندہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔
اومنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم کی وجہ سے ان کا علاج نہیں کیا جا رہا، انورمجید کو اسپتال منتقل کیا جائے۔
چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اندر ہو تو کمبل میں لیٹا رہتا ہے اور باہر ہو تو دفتر کے سارے کام کرتا ہے، انور مجید کی زندگی کو کوئی خطرہ ہے، وہ سندھ حکومت کا پیارا ہے، سندھ حکومت والے ان کا زیادہ خیال رکھیں گے ۔
جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ انور مجیدکو بہترین علاج مہیا کریں گے، راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے پاس سی ایم ایچ میں داخل کرا دیتے ہیں، کھربوں پتی لوگ ہیں، یہاں پچاس پچاس کنال کے سو گھر خرید سکتے ہیں، ابھی باہر جانے کی اجازت دے دوں تو بچے سے بڑے تک باہر چلے جائیں گے۔
اومنی گروپ کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ان کے مؤکل کراچی میں رہنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید کا اسلام آباد سے علاج ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے، انور مجید کو اڈیالہ منتقل کر دیتے ہیں۔
اومنی گروپ کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ انور مجید کی صحت سفر کرنے کی اجازت نہیں دیتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ائیر ایمبولینس میں لے آتے ہیں اور ان کے علاج کیلئے ڈاکٹر بھی تعینات کر دیتے ہیں۔
چیف جسٹس کا بیمار افراد کا میڈیکل سی ایم ایچ سے کرا کر رپورٹ کراچی میں پیش کرنے کا حکم
چیف جسٹس پاکستان نے بیمار افراد کا میڈیکل سی ایم ایچ سے کرا کر رپورٹ کراچی میں پیش کرنے کا حکم دیا جب کہ عدالت نے آئی جی سندھ کلیم امام کو بھی 26 اکتوبر کو کراچی میں سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
اومنی گروپ کے وکیل شاہد حامد نے عدالت سے استدعا کی کہ اومنی گروپ کے بینک اکاونٹ کھولے جائیں، ملازمین کو تنخواہیں دینی ہوتی ہیں، جو اکاؤنٹس منجمد ہوئے وہ جعلی نہیں تھے، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے سے معیشت اور ملک کا نقصان ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 91 ارب روپے کا پتہ چلنےتک ملیں نہیں کھولیں گے۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پس منظر
ایف آئی اے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں جب کہ تحقیقات میں تیزی کے بعد سے اب تک کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آچکے ہیں جن میں فالودے والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹس سے بھی کروڑوں روپے نکلے ہیں۔
ملک میں بڑے بزنس گروپ ٹیکس بچانے کے لیے ایسے اکاؤنٹس کھولتے ہیں، جنہیں 'ٹریڈ اکاؤنٹس' کہاجاتا ہے اور جس کے نام پر یہ اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے، اسے رقم بھی دی جاتی ہے۔
اس طرح کے اکاؤنٹس صرف پاکستان میں ہی کھولے جاتے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔
منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ اور آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید کو سپریم کورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا جب کہ زرداری کے ایک اور قریبی ساتھی نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہیں۔
اسی کیس میں تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور پیش ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔
ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔