پاکستان
Time 31 دسمبر ، 2018

بھارت میں زندگی اور موت سے لڑتا پاکستانی نوجوان مسیحا کا منتظر

بھارتی اسپتال میں زیرعلاج 17 سالہ منان علی کو مزید 15 سے 20 لاکھ روپے جمع کرانے ہیں — فوٹو: جیو نیوز 

حیدرآباد کا 17 سالہ نوجوان منان علی میرانی نومبر سے بھارت کے اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اور علاج کے اخراجات نے منان کے والدین کی مفلسی میں مزید اضافہ کردیا ہے جس کے باعث ان کی آنکھیں بسترِ مرگ پر لیٹے اپنے جواں سال کے علاج کے لیے کسی مسیحا یا حکومتی امداد کی منتظر ہیں۔

حیدرآباد کے رہائشی مدد علی میرانی محکمہ تعلیم میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر تعینات ہیں، 2016 میں مدد علی کے گھر اس وقت مصیبتوں نے بسیرا کرلیا جب ڈاکٹروں نے انہیں ان کے 17 سالہ بیٹے منان علی کی بیماری کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک دل کی نہایت پیچیدہ اور جان لیوا بیماری کا شکار ہے۔ 

ڈاکٹروں نے منان کے فوری آپریشن کا مشورہ دیا لیکن نوجوان کے دل کا آپریشن صرف پڑوسی ملک بھارت میں ہی ممکن تھا۔

مدد علی نے اپنے لختِ جگر کے علاج کے لیے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے 55 کلومیٹر دور واقع جے پی اسپتال سے رابطہ کیا اور معلومات حاصل کیں، بے بس باپ نے منان کے علاج کے لیے رقم اسپتال میں جمع کرائی اور بیٹے کی زندگی بچانے کی آس لیے بھارت جا پہنچا۔

منان علی میران کا پہلا آپریشن تو کامیاب ہوا لیکن جے پی اسپتال کے ڈاکٹروں نے اسے اگلے برس یعنی 2017 میں دوسرے آپریشن کیلئے دوبارہ اسپتال آنے کا کہا۔

اسپتال انتظامیہ نے منان کے دوسرے آپریشن پر 12 لاکھ روپے کی خطیر رقم کا خرچ بتایا تو باپ کے ہاتھوں میں سوائے لکیروں اور آنکھوں میں آنسوؤں کے کچھ نہ تھا۔

کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے مدد علی نے اپنی آنکھوں کی روشنی اپنی اولاد کو بچانے کے لیے اپنی اہلیہ یعنی منان کی ماں کے زیور اور قیمتی اشیا کو قربان چڑھایا اور اپنی جمع پونجی لگا کر بیٹے کے علاج کے لیے 12 لاکھ بھارتی روپے اسپتال میں جمع کرائے۔

لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود ان کی آنکھوں میں سجے خواب پژمردہ ہی رہے اور ان کے بیٹے کی بیماری مزید خطرناک صورت اختیار کرگئی۔

نومبر 2018 کو مدد علی اور ان کی اہلیہ فرزانہ میرانی اپنے جگر گوشے کو لےکر جے پی اسپتال پہنچے جہاں 15 تاریخ کو نوجوان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔

کامیاب اوپن ہارٹ سرجری کے بعد بھی ڈاکٹروں نے لاچار ماں باپ کو کوئی مژدہ نہ سنایا۔

ڈاکٹروں کے مطابق  منان کے پھیپھڑوں میں خون کا رساؤ شروع ہوگیا جس کی وجہ سے اسے بقیدِ حیات رکھنے کے لیے مصنوعی تنفس فراہم کرنے والی مشین پر منتقل کردیا گیا۔

اسپتال انتظامیہ نے مصیبتوں میں گھرے والدین کو ایک بار پھر 15 سے 20 لاکھ روپے جمع کرانے کا کہا جس سے ان کے حوصلے معدوم ہوگئے اور وہ اپنے جواں سال بیٹے کی زندگی کا دیا روشن رکھنے کے لیے مسیحا یا حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔

مزید خبریں :