15 جنوری ، 2019
اسلام آباد: پاکپتن دربار اراضی منتقلی کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ حسین اصغر نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف نے دربار کی زمین غیر قانونی طور پر منتقل کی۔
واضح رہے کہ مذکورہ کیس کی 13 دسمبر 2018 کو ہونے والی گذشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے پاکپتن دربار اراضی کیس میں نواز شریف کے کردار کا جائزہ لینے کے لیے 3 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، جس کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل نیکٹا خالق داد لک کو بنایا گیا تھا، تاہم ان کی جانب سے معذرت کے بعد ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب حسین اصغر کو جے آئی ٹی سربراہ مقرر کردیا گیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے آج پاکپتن دربار اراضی منتقلی کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران تحقیقات کے لیے قائم کی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ حسین اصغر نے انکوائری رپورٹ پیش کی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ 'نواز شریف نے دربار کی زمین غیر قانونی طور پر منتقل کی تھی، 2015 میں دی گئی پہلی تفتیشی رپورٹ میں وزیراعلیٰ کو ذمہ دار قرار دیا گیا، تاہم 2016 میں دوسری رپورٹ بنا کر وزیر اعلیٰ کانام نکال دیا گیا تھا'۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'اب وہ دور نہیں رہا، تیسری رپورٹ نہیں بنے گی'۔
جے آئی ٹی سربراہ حسین اصغر نے مزید بتایا کہ 'ہجرہ شاہ مقیم اور دربار حافظ جمال کی زمین بھی دی گئی اور یہ ساری زمینیں ایک ہی دور میں نواز شریف نے دیں'۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ان درباروں کی زمین 1986 میں الاٹ کی گئی'۔
ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ 'سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کس قانون کے تحت وقف زمین کا نوٹیفیکشن واپس لیا؟اور وقف پراپرٹی کو کیسے بیچ دیا گیا؟'
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 'ڈسٹرکٹ جج اور ہائیکورٹ نے کہہ دیا تھا کہ وقف زمین کا نوٹیفکیشن واپس نہیں ہوسکتا، کس قانون کے تحت وقف زمین کا نوٹیفکیشن واپس لیا گیا؟'
تاہم نواز شریف کے وکیل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ 'ان کے موکل نے زمین واپسی کے نوٹیفکیشن کی تردید کی ہے'۔
جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ 'اب انکوائری رپورٹ آ چکی ہے'۔
ساتھ ہی انہوں نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کر رہے ہیں'۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ 'ایسا نہ ہو کہ ہم اینٹی کرپشن کو پرچہ درج کرنے کے لیے کہہ دیں، اگر تفتیش اور انکوائری ہوئی تو کوئی بچ نہیں پائے گا'۔
جے آئی ٹی سربراہ حسین اصغر نے بتایا کہ 'اُس وقت کے وزیراعلیٰ کے سیکریٹری نے تسلیم کیا کہ نوٹیفکیشن وزیراعلیٰ کے کہنے پر واپس ہوا'۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 'نواز شریف کے سابق سیکریٹری سے بھی تفتیش کی گئی ہے، جو 75 سالہ ضعیف شخص ہیں'۔
سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت اور نواز شریف سے رپورٹ پر 2 ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
پاکپتن دربار اراضی کیس کا پس منظر
دیوان غلام قطب الدین نے 1985 میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں اس حوالے سے مقدمہ دائر کیا تھا کہ پاکپتن دربار سے ملحقہ 14 ہزار کنال زمین 1969 کے ایک آرڈر کے تحت محکمہ اوقاف کو دی گئی، جبکہ یہ زمین ان کی ملکیت تھی۔
تاہم مقامی عدالت نے فیصلہ دیا کہ دربار سے ملحقہ اراضی محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے، اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ نے بھی برقرار رکھا، جس پر دیوان غلام قطب الدین اس معاملے کو سپریم کورٹ لے گئے۔
ابھی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہی تھا کہ مبینہ طور پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ کی جانب سے 1969 کے آرڈر کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا۔
جس کے بعد دیوان غلام قطب الدین نے اس اراضی کو فروخت کردیا اور وہاں دکانیں وغیرہ تعمیر کردی گئیں۔
سپریم کورٹ نے 2015 میں پاکپتن میں دربار کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
اس کیس کی اب تک 15 سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں، 2015 میں پاکپتن دربار اراضی کیس کی آٹھ، 2016 میں چار جبکہ 2017 میں کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
گذشتہ برس 2 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا اور 4 دسمبر 2018 کو ہونے والی سماعت میں عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر نواز شریف بھی پیش ہوئے تھے۔
نواز شریف پر بطور وزیراعلیٰ محکمہ اوقاف کی زمین واپسی کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا الزام ہے۔