24 جنوری ، 2019
کراچی: نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے نقیب سمیت 4 افراد کا قتل ماورائے عدالت قرار دے دیا جس کے بعد عدالت نے نقیب اللہ ودیگر کے خلاف درج 5 مقدمات ختم کرنے کی رپورٹ بھی منظور کرلی۔
نقیب قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کردی۔
انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق نقیب الل٘ہ، صابر، نذر جان اور اسحاق کو دہشت گرد قرار دے کر ویران مقام پر قتل کیا گیا، انکوائری کمیٹی اور تفتیشی افسر نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا، پولٹری فارم میں نہ ہی گولیوں کے نشان ملے اور نہ ہی دستی بم پھٹنے کے آثار ملے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ حالات و واقعات اور شواہد کی روشنی میں یہ مقابلہ خود ساختہ، جھوٹا اور بے بنیاد تھا، نقیب اللہ اور چاروں افراد کو کمرے میں قتل کرنے کے بعد اسلحہ اور گولیاں ڈالی گئیں، راؤ انوار اور اس کے ساتھی جائے وقوعہ پر موجود تھے۔
نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟
واضح رہے کہ راؤ انوار 31 دسمبر 2018 کو اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ایس ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
13 جنوری 2018 کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
جس کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور سابق وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کو انکوائری کا حکم دیا۔
نقیب اللہ کے والد خان محمد کی جانب سے درج کروائے گئے واقعے کے مقدمے میں راؤ انوار کو نامزد کیا گیا تھا۔
بعدازاں پولیس کے اعلیٰ افسران پر مشتمل کمیٹی نے معاملے کی تحقیقات کرکے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیا اور نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دے کر پولیس افسر کی گرفتاری کی سفارش کی تھی۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر از خود نوٹس بھی لیا گیا تھا۔
ملزم راؤ انوار کچھ عرصے تک روپوش رہے تاہم 21 مارچ کو وہ اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے جہاں عدالت نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
بعدازاں ضمانت ملنے کے بعد راؤ انوار کو 21 جولائی کو رہا کردیا گیا تھا۔