Time 12 جولائی ، 2019
پاکستان

جج ارشد ملک کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں: وفاقی وزیر قانون


وزارت قانون نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد مزید کام کرنے سے روک دیا۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

 وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی خدمات واپس کرنے کے حوالہ سے مراسلہ بھیجا تھا جس کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت قانون نے ارشد ملک کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ خوف اور لالچ کے بغیر فیصلہ دیا، رشوت کی پیشکش بھی کی گئی تھی، بیان حلفی کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ جج صاحب نے فیصلہ میرٹ پر کیا، نواز شریف کو ایک مقدمے میں سزا اور دوسرے میں بری کیا گیا۔

وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ نیب کے قانون کے مطابق اگر جج کو دھمکی یا سفارش کی پیشکش کی جائے تو اس کی سزا 10 سال ہے، جج کو کام سے روکنے پر ان کے فیصلوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ جاتی امراء میں نواز شریف سے ارشد ملک کی ملاقات کرائی گئی، عمرے پر حسین نواز جج ارشد ملک کو ملے اور 50 کروڑ کی پیشکش کی، وہ لندن میں اپنے فلیٹس کی منی ٹریل دیں اور بری ہوجائیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی زیر سماعت اپیل پر فیصلہ کرنا ہے لیکن کسی کو عدالت پر دباﺅ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور موجودہ حکومت آئین، قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہے، عدالتوں کو دباﺅ میں لانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔

حکومت کا جج کی ویڈیو دکھانے کے دوران پریس کانفرنس میں موجود افراد کے خلاف کارروائی کا عندیہ

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ویڈیو جاری ہونے اور پریس ریلیز کے بعد وضاحت کرنا ضروری تھی، بیان حلفی میں جو چیز بیان کی گئی وہ صرف مافیا کا کام ہو سکتا ہے، مارگلہ روڈ پر موجود گھر سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ 

انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی تعیناتی کو دیکھنا ہوگا، بیان حلفی میں کہا گیا کہ کروڑوں روپے کی پیشکش کی گئی، رشوت دینے والے منی لانڈرنگ کے ماہر ہیں، یہ کیس ملزم کی استدعا پر ہی ارشد ملک کے پاس گیا تھا، پہلے یہ کیس جج محمد بشیر کی عدالت میں تھا، جب ملزمان کے حق میں فیصلہ نہ آیا تو رابطے کیے گئے۔ 

انہوں نے کہا کہ ناصر بٹ جج ارشد ملک کو جاتی امراء نواز شریف کے پاس لیکر گئے جہاں نواز شریف سے جج ارشد ملک کی ملاقات کرائی گئی، بیان حلفی میں لکھا گیا کہ میاں نواز شریف مطمئن نہ ہوئے تو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انکوائری میں پوری سازش کو دیکھا جائے گا، ابھی بھی عدالتی نظام پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جج کی ویڈیو دکھانے کے دوران جو لوگ پریس کانفرنس میں موجود تھے، ان کے خلاف کارروائی کو بھی دیکھیں گے۔

معاون خصوصی برائے احتساب کے مطابق معاملہ پاناما سے شروع ہوا اور اس کا جواب صرف منی ٹریل ہے، اس کیس میں حتمی فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کرے گی۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزارت قانون کو خط لکھا۔

یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نوازشریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔

جس کے بعد اب سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ 16 جولائی کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا تھا۔

مزید خبریں :