26 اگست ، 2019
کشمیر کے انسانی المیے پر اگر کسی نے انسان دوستی کا مظاہرہ کیا بھی ہے تو وہ ہیں انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور برصغیر کے جمہوری حلقے جو ہمارے ہاں کبھی بھی قابلِ اعتنا نہ سمجھے گئے۔ ماسوا چین کے عالمی طاقتوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا اور ہماری اُمہ خوابِ غفلت میں مست رہی۔ بولے بھی تو ایرانی یا پھر ترک۔ وہ جن کی حفاظت کی قسمیں کھاتے ہم نہیں تھکتے اور جن کے اربوں ڈالرز سے ہم نے گزشتہ برس اپنا خالی خزانہ بھرا تھا، وہ بھی اپنے اپنے کاروبار میں مست نظر آئے۔ ایسے میں برطانوی پارلیمنٹ کی پاکستانی نژاد خاتون کے مودی کو ایک خلیجی ملک کی جانب سے ملک کے سب سے بڑے اعزاز دیئے جانے کے خلاف احتجاجی مراسلے کو کسی نے کیا توقیر دینا تھی۔ میدان میں اُتریں بھی تو اقوامِ متحدہ کی مختلف انسانی حقوق کی محافظ شاخیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور امریکہ کے قتل عام کا مشاہدہ (Genocide watch) کرنے والی تنظیم جس نے دُنیا کو مقبوضہ کشمیر میں جاری بہیمانہ جرائم کی نشاندہی کرتے ہوئے کشمیریوں کی انسانی بقا اور شہری حقوق کی بحالی کے مطالبات کئے ہیں۔
دُنیا کو غالباً اب بھی کسی بڑے انسانی سانحہ کا انتظار ہے جو مودی کے یک طرفہ جبری قبضے (Annexation) پر ششدر ہو کے رہ گئی ہے۔ وادیٔ کشمیر میں لاگو کرفیو، اطلاعاتی بلیک آئوٹ، اجتماعی سزائوں اور بہیمانہ کارروائیوں کو تین ہفتے ہوا چاہتے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو حریت پسندوں کی اپیل پر لوگ بندشوں کو توڑتے باہر نکلے اور غنیم کی گولیاں اُنہیں آزادی آزادی پکارنے سے نہ روک سکیں۔ وہ جو گزشتہ 72برس سے پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر گلے پھاڑ پھاڑ کر خون کا آخری قطرہ بہانے پر تیار دکھائی دیتے تھے، اُن کا سراغ نہ مل سکا۔ اور ہمارے دفاع پاکستان کونسل کے اکابرین جانے کہاں منہ چھپا کے بیٹھ گئے۔ بولیں بھی تو انسانی حقوق کی تنظیمیں، ’’موم بتی مافیا‘‘ اور ترقی پسند جماعتیں جو ہمیشہ طعن و تشنیع کا نشانہ رہیں۔
ہندو فرقہ پرستوں اور فسطائی عناصر کے حملے کی زد میں فقط مسلمان اور کشمیر کے لوگ نہیں ہیں کیونکہ ہندو راشٹرا کے رتھ کی زد میں خود انڈین جمہوریہ اور سیکولرازم بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سیکولر اور بائیں بازو کے عناصر مودی کی کشمیر کی قبضہ گیری مہم کیخلاف کھڑے نظر آتے ہیں۔ اُنہیں نظر آیا ہے کہ بھارت کا کشمیر کے الحاق کے حوالے سے جیسا کیسا آئینی بندوبست تھا مودی حکومت نے اُسے جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا ہے۔ کشمیر کی وہ سیاسی قوتیں جو آرٹیکل 370اور 35Aکی سیاست کھیلتی تھیں، وہ بھی اب علیحدگی پسندوں کی صفوں میں دھکیل دی گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو عوام کا مسئلہ سمجھنے کے بجائے اسے ریاستوں کی رسہ کشی میں ایک علاقائی تنازع جانا گیا اور 72برس سے کشمیری نہ صرف منقسم ہو کر رہ گئے بلکہ بنیادی انسانی حقوق اور قومی شخصیت سے محروم رکھے گئے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور ہندوتوا پریوار کے عزائم بھارتی جمہوریہ کو ایک ہندو راشٹرا میں بدلنا ہے۔ اس لئے پہلے مسلمانوں کو نفرت انگریزی کا نشانہ بنایا گیا اور اب کشمیر کی خصوصیت حیثیت کو تلپٹ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ ہندوتوا کے ایجنڈے پر رام مندر کی تعمیر، ایک مشترکہ سول کوڈ اور آئین و قومی شناخت کی مذہبی کایا پلٹ بھی شامل ہے۔ کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے اسے ’’ہندو پاکستان‘‘ اور کشمیر کو فلسطین بنائے جانے کی پھبتی ایسے ہی نہیں کسی۔ ہندوتوا اور صہیونیت بہت ملتی جلتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل میں عربوں کے ساتھ اور کشمیر میں مودی وہی کرنے جا رہا ہے جو مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودیوں کی بستیاں بسا کر اور مغربی کنارے اور غزہ کی ناکہ بندی کرے کے اسرائیلی کر رہے ہیں۔ اس نئے خطرے کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کسی حد تک صحیح بیانیہ اختیار کیا ہے اور مودی کی بالادست ہندو قوم پرستی کو نازیوں کی فسطائیت کے مشابہ قرار دیا ہے۔ یہ بیانیہ اگر کشمیریوں کے جمہوری و انسانی حقوق کی جدوجہد سے جوڑ کر رکھا جائے تو عالمی رائے عامہ کیلئے بہت متاثر کُن ہو سکتا ہے۔ مگر مودی چاہے گا کہ پاکستان پرانی طرز کی جہادی سرگرمیاںشروع کرے تاکہ وہ پھر سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی پکار کو سرحد پار دہشت گردی سے خلط ملط کر کے رائے عامہ کو متاثر کر سکے۔ لگتا یہ ہے کہ جنرل باجوہ کی سربراہی میں پاک فوج ایسی کسی شرانگیز مہم جوئی کی اجازت نہیں دے رہی اور خدشہ ہے کہ مودی ہی کوئی ایسا تماشا خود نہ لگا لے۔
اب ایک نئے جمہوری و انسانی موقف کے ساتھ کی گئی سفارت کاری کو یقیناً پذیرائی ملے گی۔ نہ کہ اُس موقف سے جو بھارت میں پاکستان کے تین سابقہ ہائی کمشنرز نے حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں اختیار کیا۔ یقیناً کشمیری عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ غاصبانہ قبضے اور غارت گری کے خلاف عَلم بغاوت بلند کریں، لیکن یہ حق ملحقہ ریاستوں کو نہیں ہے۔ کشمیریوں کی اپنی نامیاتی انتفادہ کا ایک اور دور شروع ہو گیا ہے اور اب تقریباً سارے عام کشمیری بھارتی غلبے سے نالاں ہو گئے ہیں اور آزادی کے حصول کی جنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایسے وقت میں اگر پاکستان کی حکومت اقوامِ متحدہ سے اپنے زیرِ انتظام علاقوں میں ریفرنڈم کے انعقاد کی تجویز پیش کرے تو مودی کی جارحانہ توسیع پسندی بڑی سفارتی و سیاسی مشکل کا شکار ہو سکتی ہے۔ کشمیر پر پالیسی کے از سرِ نو جائزہ کی ضرورت ہے، اس لئے بھی کہ اب اندرونی و بیرونی حالات بھی اس کے متقاضی ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کی اب پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سلامتی و خارجہ پالیسیوں کا اپنے زمینی حقائق کے حساب سے از سرِ نو جائزہ لیں۔
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادئ کشمیر