01 ستمبر ، 2019
موازنہ بنتا تو نہیں مگر کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ پاکستا ن کے پاس سرسبز پہاڑ ہیں، سوئٹزر لینڈ کے پاس بھی دنیا کے بہترین پہاڑ ہیں، پاکستان میں دریا بہتے ہیں سوئٹزر لینڈ کے شہروں میں بھی دریا ٹھاٹھیں مارتے ہیں، پاکستان کے پاس برف پوش چوٹیاں ہیں سوئٹزر لینڈ میں بھی برفیلی وادیاں ہیں، پاکستان میں خوبصورت جھیلیں ہیں سوئٹزر لینڈ کی جھیلیں بھی سبز ہیں، دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کی خوبصورتی میں زیادہ فرق نہیں بلکہ پاکستان کو زیادہ نمبر ملنے چاہئیں کہ یہاں سمندر ہے، جو سوئٹزر لینڈ میں نہیں، یہاں صحرا ہے جو وہاں نہیں، پاکستان میں بڑے مذاہب کے تاریخی مقامات ہیں جو سوئٹزر لینڈ میں نہیں اور ہمارے پاس دنیا کا دوسرا بلند ترین پلیٹو دیوسائی ہے جو کسی اور ملک کے پاس نہیں۔ مگر موازنہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہاں سے شروع ہوتا ہے۔
سال بھر میں جتنے سیاح سوئٹزر لینڈ جاتے ہیں اگر اس کا پانچواں حصہ بھی پاکستان آنا شروع کر دیں تو ہماری تقدیر بدل سکتی ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ قوموں کی تقدیر فرد سے مختلف ہوتی ہے، انفرادی طور پر لوگ خوش قسمت ہو سکتے ہیں مگر قومیں خوش قسمتی یا دعائیں قبو ل ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکتیں۔ پاکستان کے تمام تفریحی مقامات مل کر اتنا منافع نہیں کما سکتے جتنا سوئٹزر لینڈ کا ایک چھوٹا سا شہر کماتا ہے، آپ زیورخ سے کوئی ٹرین پکڑیں، نقشے میں کسی جگہ انگلی رکھیں اور آنکھیں بند کر کے وہاں اتر جائیں، کوئی قصبہ، گاؤں یا تحصیل، اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی، ہر جگہ اعلیٰ معیار کی پبلک ٹرانسپورٹ ملے گی، پُرفضا تفریحی مقامات ملیں گے اور انواع و اقسام کی تفریحات کا ڈھیر لگا ہوگا۔ ہم نے یہ تجربہ کرکے دیکھا۔ زیورخ سے ٹرین میں بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ جہاں دل کیا اتر جائیں گے، قریباً ڈیرھ گھنٹے بعد Thunشہر آیا، ہماری ٹرین پلیٹ فارم نمبر دو پر آ کر لگی تو اُس وقت وہاں زیادہ رش نہیں تھا، چند مسافر دکھائی دے رہے تھے، ہم وہیں اتر گئے۔ ’’تُھن‘‘ کو آپ وزیرآباد کی طرح جنکشن سمجھ لیں، ٹکٹ گھر میں کچھ لوگ قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اور دو تین چھوٹی سی دکانیں، جہاں نظر کی عینک سے لے کر کافی تک سب کچھ دستیاب تھا۔ ہم نے کافی پی اور اسٹیشن سے باہر نکل آئے۔ پہلی نظر میں شہر سے محبت ہو گئی، سامنے سرسبز پہاڑ، ان میں چھوٹے چھوٹے رنگین مکانات جن میں وہی پھولوں سے سجی ٹوکریاں جو فضا کا حسن دوبالا کر رہی تھیں۔
کسی نے بتایا کہ ذرا سا آگے بائیں طرف کو مڑو گے تو دریا کے کنارے چلتے ہوئے شہر کے پُررونق مرکز میں پہنچ جائو گے، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، سو چل پڑے، پانچ منٹ بعد ہم دریا تک پہنچ گئے۔ یورپ کے اکثر شہروں میں دریا ایسے ہی ملتے ہیں، شہر کے بیچوں بیچ، یہ بھی ایسا ہی تھا، کنارے پر جا بجا ریستوران اور دکانیں مگر دلچسپ بات یہ تھی کہ لوگ اس دریا کو تیر کر پار بھی کر رہے تھے اور اس کے لیے اُنہوں نے جو انتظام کر رکھا تھا وہ بہت منفرد تھا۔ ایک نوجوان جو دریا میں تیرنے آیا تھا، اُس نے اپنے کپڑے ایک تھیلے میں ڈالے، پھر ایک دھوتی نما چادر اپنی کمر کے گرد لپیٹ کر سوئمنگ کاسٹیوم پہنا، اپنا موبائل فون، چاجر، پاور بینک اور دیگر چیزیں بھی اسی تھیلے میں ڈال کر اُس کا منہ یوں بند کر دیا کہ اُس میں کچھ ہوا بھر گئی، یہ ایک واٹر پروف تھیلا تھا جو تیرتے وقت سہارا بھی دیتا تھا، نوجوان نے تھیلا دریا میں پھینکا، ساتھ ہی خود بھی چھلانگ لگا دی اور یہ جا وہ جا۔ کچھ دیر بعد چند خواتین نے بھی یہی حرکت کی جس کی تفصیل میں جانا یہاں مناسب نہیں، خواہشمند احباب علیحدگی میں ملاقات کا وقت لیں۔
دنیا میں سیاحت کے دو ماڈل ہیں، ایک مذہبی ٹورازم اور دوسرا تفریحی، سوئٹزر لینڈ تفریحی ماڈل پر چلتا ہے جبکہ ہمارے پاس دونوں مواقع موجود ہیں مگر ان میں سے ایک بھی نہیں چلتا۔ وہ زمانہ گیا جب لوگ محض گرمی سے تنگ آکر پہاڑوں پر جاتے تھے، اب لوگ لاہور سے ناران جاتے ہیں اور دنبے کی کڑاہی کھانے کے بعد سوچتے ہیں کہ اب کیا کریں۔
اگر سیاحت صرف خوبصورت پہاڑوں اور دریاؤں سے فروغ پا سکتی تو ہمارے ملک میں سیاحوں کا رش لگا رہتا مگر ایسا نہیں ہے، وجہ اُس کی یہ ہے کہ ہمارے بہترین تفریحی مقامات بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، بلوچستا ن کے ساحل ہوں یا دیو سائی کا میدان، کشمیر کی وادی ہو یا موہنجو دڑو جیسا قیمتی ورثہ، کہیں کوئی ڈھنگ کا ہوٹل ملے گا نہ ریستوران، ٹھہرنے کی کوئی جگہ ہوگی نہ صاف ستھرے ٹائلٹ، ایسے میں سیاحت نہیں ہو سکتی صرف نعرے بازی ہو سکتی ہے کہ ہمارے جیسے پہاڑ کسی کے پاس نہیں، اور یہ بھی ہماری غلط فہمی ہے۔
زیورخ سے انٹر لاکن کی ٹرین سوا دو گھنٹے کی ہے، آپ یہاں سے ٹرین بدل کر گرنڈل وال جا سکتے ہیں، خدا نے اس خطے کو عجیب و غریب خوبصورتی سے نوازا ہے، گرنڈل وال سےکیبل کار سات ہزار فٹ کی بلندی تک لے جاتی ہے، اوپر جاتے ہوئے وادی کا نظارہ اس قدر دلفریب ہے کہ جنت کا گمان ہوتا ہے، مکانوں کے بیچوں بیچ راستے بنے ہوئے ہیں، لوگوں نے گھاس کاٹ کر برابر کر رکھی ہے اور یہ اُن کی ضرورت ہے، سردیوں میں یہاں دو دو فٹ برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے انہیں گرمیوں میں اپنی گائے بھینسوں کے لیے چارہ کاٹ کر رکھنا پڑتا ہے، کام بھی ہو جاتا ہے اور وادی کی خوبصورتی بھی برقرار رہتی ہے۔
پہاڑ کی چوٹی پر ریستوران بنے ہیں، سوینیئر شاپس ہیں، یہاں سے آپ کرائے پر سائیکل یاموٹر سائیکل لے کر خود پہاڑوں کی سیر کو نکل سکتے ہیں، مزید ایڈونچر کا شوق ہے تو ایک رسی سے لٹک کر چوٹی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھی جا سکتے ہیں، پھر بھی دل نہ بھرے تو کسی پرندے کی طرح پیرا گلائڈنگ کرتے ہوئے سوئس پہاڑوں کا اوپر سے نظارہ کر سکتے ہیں۔
ہمارے پاس بھی گرنڈل وال جیسے پہاڑ ہیں، مگر بات وہی کہ وہاں تک جانے کے لیے نہ ٹرین ہے اور نہ کیبل کار، چلیں اس کے بغیر بھی گزارا ہو جاتا ہے اگر لوگ پروفیشنل ہوں، صفائی ستھرائی ہو، کہیں رات گزارنے کا معقول انتظام ہو اور یہ ڈر نہ ہو کہ اگر سڑک بند ہو گئی تو پھر ٹی وی پر خبر چلنے کے بعد ہی کھلے گی۔
سوئٹزر لینڈ میں ایسا کوئی خوف نہیں اور اس کی وجہ سوئٹزر لینڈ کا شاندار انفراسٹرکچر ہے جس کی پوری قیمت یہ ملک سیاحوں سے وصول کرتا ہے، اس کا ٹرانسپورٹ کا نظام دنیا کا بہترین نظام ہے اور اتنا ہی مہنگا بھی، مگر انہوں نے عام سیاحوں کی سہولت کے لیے مختلف سفری پاس بنائے ہوئے ہیں، آپ اپنی مرضی سے کوئی پاس بنوا لیں اور پھر پورے سوئٹزر لینڈ میں اس پاس پر سفر کریں، یہ قدرے سستا پڑتا ہے۔
اگر ہماری زمین پر کسی دوسرے سیارے کی مخلوق مہمان بن کر آئے تو شاید ہم اسے سوئٹزر لینڈ میں ٹھہرائیں گے کہ یہ ہماری دنیا کا ڈرائنگ روم ہے، ایسی دل موہ لینے والی خوبصورتی شاید ہی کسی اور ملک کے حصے میں آئی ہو۔ ایسا قدرتی حسن دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے، پاکستان کا خیال آتا ہے، ہمارے پاس بھی انٹر لاکن جیسی خوبصورتی ہے مگر ہم نے ابھی کچھ بنیادی فیصلے کرنا ہیں جب تک وہ نہیں ہوتے اُس وقت تک مری پر گزارا کریں۔