03 ستمبر ، 2019
ہم ان دنوں ایک طرفہ آزمائش سے دوچار ہیں۔ بظاہر بلند بانگ نعروں کا شور ہے، عشروں سے سیکھا ہوا پامال آموختہ ایک بیزار کن تسلسل سے دہرایا جا رہا ہے۔ زمینی حقائق کے کچھ نیم تاریک گوشے لمحے بھر کو روشن ہوتے ہیں اور پھر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔
حکومت کے کچھ ارکان کو غیر ذمہ دار گیدڑ بھبکیوں کا مورچہ سونپا گیا ہے۔ کچھ کو ہدایت ہے کہ غیر محسوس طور پر تصویر کے حقیقت سے قریب تر رخ کی طرف بھی اشارے کئے جائیں۔
قومی سطح پر ہفتہ وار احتجاج کا جو عدیم المثال منظر کھینچا گیا تھا، اس کی اس قدر بے رس تعبیر برآمد ہوئی کہ چپ ہو گئے تیرے رونے والے، دنیا کا خیال آ گیا ہے۔ سوئے اتفاق سے عین اس ہنگام معیشت کے بارے میں معلوم ہوا کہ قومی خزانے کی بے مائیگی کمیت میں نہیں بلکہ جوہری اعتبار سے زوال آمادہ ہے۔ گویا دمدموں میں دم نہیں۔
اسلامی امہ اور اسلامی فوجی اتحاد جیسے کہ نہ سکوں کی کھنک تو چھوٹتے ہی اپنا اعتبار کھو بیٹھی تھی، پھر سلامتی کونسل سے بھی حوصلہ افزا آواز سنائی نہیں دی۔ اب یورپی یونین سے توقع باندھی گئی ہے اور نیز تین ہفتے بعد جنرل اسمبلی کا معرکہ باقی ہے۔
اچھے وقتوں میں جب حریم ناز کے التفات سے محروم بدعنوان، نااہل اور قومی مفاد سے بیگانہ سربراہانِ حکومت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے جاتے تھے تو اس مجلس پر نشستن، گفتن، خوردن و برخاستند کی پھبتی کسی جاتی تھی۔
اب انکشاف ہوا کہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کا مقام تو گویا مہر و ماہ کے برابر نکلا۔ اچانک ہمیں خیال آیا کہ انسانی حقوق کا پرچم اٹھا کر انصاف کی دہائی دی جاتی ہے۔ ہاں بھائی، انسانی حقوق کا ذکر تو سن رکھا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ انسانی حقوق کی خلعت اظہر صدیق، شاہد اورکزئی اور عبداللہ ملک جیسے تودہ ہائے خاک سے مناسبت نہیں رکھتی، یہ چادر تو اطاعت کی شاہراہ سے انحراف کرنے والوں کی قبر پر پوری اترتی ہے۔
کشمیر میں ظلم کا بازار گرم ہوا تو بھارت میں ارون دھتی رائے اور برکھا دت نام کی دو خواتین کی قامت کا بھی ہمارے ہاں چرچا ہوا۔ کوئی بستی اچھے انسانوں سے خالی نہیں ہوتی۔ بھارت میں کلدیپ نائر اور راجندر سچر بھی تو تھے۔ نرملا دیش پانڈے کی قیادت میں امن پسند خواتین کا ایک وفد پاکستان آیا تو ہمارے پارسا صحافی نے ایک نظریاتی اخبار میں ایسا کالم لکھا جس کا عنوان یاد دلانا بھی شرمندگی کا مضمون ہو گا۔
ابھی کل کی بات ہے کہ خورشید قصوری کی پذیرائی کرنے پر آر ایس ایس کے سورماؤں نے سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر کالک تھونپ دی تھی۔ پچھلے مہینے ہمارے عبقری ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلوب سیاست کی تعریف میں نہال ہو رہے تھے، اب انہیں معلوم ہوا کہ امریکہ میں برنی سینڈرز نام کا ایک بوڑھا ڈیموکریٹ ممکنہ طور پر آئندہ برس کے لئے صدارتی امیدوار ہے اور وہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیتا ہے۔
یوں تو ہماری صفوں میں بھی حمزہ عباسی، شاہد آفریدی، زید حامد اور محترمہ وینا ملک جیسے وطن دوست جواہر پارے موجود ہیں لیکن یہ ملالہ یوسفزئی، عاصمہ جہانگیر اور امتیاز عالم وغیرہ کچھ اور مٹی سے بنے ہوتے ہیں۔ حقوق کی لڑائی طاقت کی مقامی بارگاہوں سے اجازت لے کر نہیں لڑی جاتی، اس لئے کہ انصاف کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ سچائی پر دربار سے مہرِ تصدیق نہیں لگوائی جاتی، اس لئے کہ سچ کی گواہی وقت خود دیتا ہے۔ کلمہ حق تعزز کا وہ پارچہ نہیں جسے اقتدار کی خوشنودی درکار ہو، اس جامہ صد چاک کی بخیہ گری خونچکاں انگلیوں سے کرنا پڑتی ہے۔
آئیے آپ کو ایک خبطی بوڑھے کا قصہ سنائیں۔ 1890میں بورس پاسٹرناک ماسکو میں پیدا ہوا۔ 1917میں انقلابِ روس برپا ہوا، اسی برس 27سالہ پاسٹرناک کی نظموں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا۔ پاسٹرناک نے انقلاب کے خونیں مناظر کو کھلی آنکھ سے دیکھا اور اپنے خول میں سمٹ گیا۔
1934میں مینڈل اسٹام نے اسے ایک نظم سنائی جس میں اسٹالن کو مخاطب کیا گیا تھا۔ پاسٹرناک نے کہا کہ تم نے یہ نظم مجھے سنائی اور نہ میں نے سنی۔ تمہیں شاید معلوم نہیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ چند روز بعد مینڈل اسٹام گرفتار ہو گیا۔ پاسٹرناک نے اس کی مدد کرنا چاہی تو اسے خود اسٹالن نے فون کیا اور مینڈل اسٹام کے بارے میں اس کی رائے پوچھی۔
پاسٹرناک نے گڑبڑا کر کہا کہ اسے مینڈل اسٹام کے خیالات سے اتفاق نہیں۔ اسٹالن کی آواز آئی ’’یوں کہو نا کہ تم اپنے دوست کے لئے آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے‘‘۔ آمریت ایذا پسند ہوتی ہے۔ پاسٹرناک کو جذباتی اذیت دینے کے لئے اس کی محبوبہ اولگا کو دس برس تک سائبیریا کے برف پوش عقوبت خانے میں قید رکھا گیا۔ تب پاسٹرناک ڈاکٹر ژواگو کے نام سے ایک ناول لکھ رہا تھا۔
اگر دنیا سے اشتراکی استبداد کے تمام دستاویزی ثبوت مٹ بھی جائیں تو یہ ایک ناول اس خوفناک تاریخی تجربے کی گواہی کے لئے کافی ہوگا جس کی بنیاد انسانی مساوات کے خوابوں پر رکھی گئی اور جس کی دیواریں کروڑوں انسانوں کی ہڈیوں پر اٹھائی گئیں۔ اسٹالن کی موت کے بعد اشتراکی جبر میں نرمی کے مختصر وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاسٹرناک نے ڈاکٹر ژواگو شائع کرنا چاہا۔
اعتراض ہوا کہ یہ ناول سوویت یونین کی نظریاتی اساس کی نفی کرتا ہے۔ کینسر کے مرض میں مبتلا پاسٹرناک موت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر قیمت پر ڈاکٹر ژواگو شائع کرائے گا۔ یہ ناول 1957میں اٹلی سے شائع ہوا۔ امریکی سی آئی اے کی بھرپور کوشش سے پاسٹرناک کے لئے ادب کے نوبیل انعام کا اعلان کیا گیا۔
سوویت حکام نے بوڑھے مصنف کو یہ اعزاز لینے سے انکار پر مجبور کیا۔ خروشیف کے بے ہودہ الزامات سے شہ پا کر اس کے خلاف ایسی خوفناک مہم چلائی گئی کہ سوویت یونین میں لوگ عام طور پر کہتے تھے، میں نے یہ ناول نہیں پڑھا لیکن میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ آمریت ضمیرِ انسانی کی اجتماعی بیخ کنی کا نام ہے۔ دشنام کے تیر و تفنگ میں گھرا درماندہ اور بیمار مصنف چلا اٹھا ’’میں نے کیا غلط لکھا ہے۔ میں نے تو صرف یہ دکھایا ہے کہ میرا ملک کتنا خوبصورت ہے اور ان احمقوں نے اسے کس طرح برباد کیا ہے‘‘۔
1960میں پاسٹرناک مر گیا اور 1991میں سوویت یونین منہدم ہو گیا۔ پاسٹرناک کے سوال کی تنہائی فتح مند رہی، سرکاری جھوٹ کا پرچار کرنے والوں کی کوئی خبر نہیں۔ ہمیں آج پاکستان کے بارے میں کچھ سوال اٹھانا تھے۔ وہ سوال آج بھی اَن کہے رہ گئے، ایک سوال خود سے سامنے آ گیا۔ جبر سے انحراف ایک آزاد شہری کا شعوری انتخاب ہے یا انحراف بذاتِ خود ایک جبر ہے جو کسی بلند تر نصب العین کی ذمہ داری اٹھانے والے کے بطن سے پھوٹتا ہے اور وہ مسلسل الزام، دشنام اور استرداد کے کوڑے کھاتا پابجولاں چلا جاتا ہے۔