17 ستمبر ، 2019
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے بینچ پر ان کے وکیل کے اعتراض کے بعد تحلیل ہوگیا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ریفرنس سے متعلق دائر آئینی درخواستوں پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کی ہدایت ہےکسی ذاتی فائدے کے لیے جوڈیشری پر کوئی حرف نہ آنے دیں، اس وقت پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں۔
جسٹس قاضی کے وکیل منیر اے ملک نے بینچ پر اعتراض اٹھایا
وکیل منیر اے ملک کی جانب سے چیف جسٹس کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ چیف جسٹس نے عدالتی سال 2018 کے آغاز کی تقریب پر خطاب کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب کے عمل سے غیر متوازن اور سیاسی انجینئرنگ کا تاثر مل رہا ہے، احتساب کا عمل جوڈیشل انجیئنرنگ کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے، میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدلیہ کا تشخص خراب نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس بینچ میں کچھ ججز کو مقدمہ سننے سے انکار کر دینا چاہیے، کوئی جج اپنے کاز کا جج نہیں ہو سکتا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کے علاوہ باقی ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، قانون کی حکمرانی کا حتمی دفاع عوام کرتے ہیں، جن ججز کے مفادات اس سے جڑے ہیں وہ اس بینچ کا حصہ نہ ہوں۔
کون سا جج متعصب ہوسکتا ہے؟ جسٹس عمر عطا کا سوال
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کون سا جج متعصب ہوسکتا ہے جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی بھی جج متعصب ہے۔
جسٹس عمر نے ریمارکس دیےکہ میں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ اس عدالت کا کوئی بھی جج متعصب نہیں، کون سے عوامل سے جج کی جانبداری ثابت ہوتی ہے، اس عدالت کا ہر جج اپنی ذمہ داری آئین اور قانون کے مطابق ادا کرتا ہے، اس عدالت کے کسی جج کو کسی مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، جج کی جانبداری کا کہہ کر آپ غلط جانب جا رہے ہیں، ہم تعصب یا جانبداری پرمزید دلائل سننا چاہتے ہیں۔
منیر ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا ضروری ہے،اعتماد نہ ہو تو انصاف نہیں ہوسکتا، جن ججز نے چیف جسٹس بننا ہے ان کی دلچسپی ہے، اس بینچ کے دو ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گے، ان کا براہ راست مفاد ہے، چیف جسٹس بننے سے ان کی تنخواہ بڑھے گی۔
جسٹس عمر نے ریمارکس دیے کہ اس فیصلے کے مطابق جج بطور جج کسی کو نہیں جانتا، آپ کیسے تشریح کرسکتے ہیں کہ اس کیس میں متعصبانہ سوچ ہے، کوئی یہ نہیں جانتا کہ کل کوئی زندہ رہے گا، آپ کیسے آئندہ برسوں کی بات کرتے ہیں، آپ کو اداروں کو مضبوط کرنے کیلیے کھڑا ہونا چاہیے، آئندہ چار برس کے مفروضے پر بات نہ کریں، اگر دوران سماعت کوئی لچک دیکھیں تو ہمیں آگاہ کریں، شروعات میں بینچ پر سوال اٹھانا صحیح نہیں ہے، ججز کا ذاتی مفاد نہیں ہے، یہ باتیں صرف افواہوں کا دروازہ کھولیں گی، آپ کی بات مستقبل کی ہے جو بہت دور ہے، سماعت میں شفافیت بھی بینچ نے لانی ہے۔
آپ مؤقف ثابت نہ کرسکے تو سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی جاری رکھے گی:
جسٹس فیصل عرب
منیر ملک کا کہنا تھا کہ عدالت کا کام صرف انصاف کرنانہیں بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے، کسی جج کو براہ راست کوئی فائدہ ہورہا ہوتو ایسا کیس سننا کوڈ آف کنڈکٹ کے منافی ہے۔
اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے منیر اے ملک سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنا مؤقف ثابت نہ کرسکے تو سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی جاری رکھےگی۔
جسٹس قاضی کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل کو سپریم کورٹ کےکسی جج پر ذاتی اعتراض نہیں، یہ سپریم کورٹ کی ساکھ اور وقار کا معاملہ ہے۔
بعد ازاں عدالت نے منیر اے ملک کے دلائل پر 7 رکنی بینچ تحلیل کرتے ہوئے نئے بینچ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھجوادیا۔
جسٹس طارق مسعود اور جسٹس اعجازالاحسن کے ریمارکس
منیر اے ملک کے اعتراض پر جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ میں پہلے ہی ذہن بناچکا تھا کہ میں اس بینچ کا حصہ نہیں بنوں گا جب کہ جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ حلف کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف کے تقاضوں پر پورا اتروں گا، میں بھی روایات کو برقرا رکھتے ہوئے بینچ سے الگ کرتا ہوں۔
اس پر منیر اے ملک نے کہاکہ میں ان دونوں ججز کا احترام کرتا ہوں، مجھے ان پر مکمل اعتماد ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جس طریقے سے ججز کو الگ کرنے کا کہا گیا مجھے اس پر تحفطات ہیں، ہم یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھجوارہے ہیں۔
ججز کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے، کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کردیا ہے۔