25 ستمبر ، 2019
مشہور زمانہ پاناما لیکس کے بیشتر کرداروں کے ایمنٹسی اسکیمز سے فائدہ اٹھانے کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ملک عامر ڈوگر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے حکومتی یقین دہانیوں کا اجلاس ہوا۔
اجلاس میں کمیٹی کو بریفنگ دی گئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ پاناما لیکس کے بیشتر کرداروں نے ایمنٹسی اسکیموں سے فائدہ اٹھا لیا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاناما لیکس میں شامل تمام کمپنیوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی تھی، 242 کمپنیوں کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ ان کے کیسز زائد المیعاد ہو چکے۔
بریفنگ کے مطابق حکومت نے ان تمام کمپنیوں کے خلاف بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں، او ای سی ڈی کے معاہدہ کے مطابق مختلف ممالک سے معلومات لی جارہی ہیں اور 146 کمپنیوں کے بارے میں تفصیلات آگئی ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ 46 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے اثاثے صفر یا اتنے پرانے ہیں کہ معلومات دستیاب نہیں، 100 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے اثاثہ جات موجود ہیں جبکہ کوائف کی چھان بین پر معلوم ہوا کہ 90 کمپنیاں پہلے ہی ایمنٹسی اسکیم کے تحت اثاثے ظاہر کر چکی ہیں۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ 96 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے بارے میں اعداد و شمار دیگر ممالک سے موصول نہیں ہوئے، بعض ممالک نے اقامہ رکھنے والوں کے بارے میں اعداد و شمار نہیں دیے۔
قائمہ کمیٹی نے دریائے راوی پر فتیانہ پُل کی تاخیر پر متعلقہ اداروں پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔
قائمہ کمیٹی کو موٹروے کے مختلف حصوں کے بارے میں حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایم 5 ملتان، سکھر موٹروے کو جلد کھول دیا جائے گا۔
کمیٹی نے حکام کو ہدایت کی کہ ایم نائن موٹروے کو اگلے ترقیاتی بجٹ میں 6 رویہ سے بڑھا کر 8 رویہ کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی برائے حکومتی یقین دہانیوں کو ملکی جامعات کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی جس کے مطابق پاکستان میں 206 یونیورسٹیاں ہیں جن میں 82 یونیورسٹیاں نجی شعبے اور 124 یونیورسٹیاں سرکاری ہیں۔
کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے اور ایچ ای سی اس معاملے پر 2 ماہ کے اندر پالیسی رپورٹ جمع کرائے۔
یاد رہے کہ جزیرہ پاناما کی ایک لاء فرم موساک فونسیکا نے 2016 میں پاناما میں جائیداد بنانے والی دنیا کی اہم شخصیات کے بارے میں ایک کروڑ 10 لاکھ دستاویزات جاری کی تھیں جس میں آف شور کمپنیاں بنانے والے پاکستان سمیت دنیا کی نامور شخصیات کے نام سامنے آئے تھے۔
ان دستاویزات کا پاکستان میں سب سے بڑا نقصان سابق وزیراعظم نواز شریف کو ہوا، جن کا نام سامنے آنے پر سپریم کورٹ میں طویل کیس چلا اور اعلیٰ عدالت نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیا۔
ان دستاویزات میں پاکستان کی بھی کئی کمپنیوں اور افراد کے نام شامل تھے تاہم شریف خاندان کے علاوہ تاحال کسی پر بھی اس حوالے سے کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔
خیال رہے کہ سابقہ حکومت کی جانب سے بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی گئی تھی جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم پیش کی تھی۔