26 ستمبر ، 2019
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارتی ہم منصب جے شنکر کی تقریر کا بائیکاٹ کردیا۔
نیویارک کے مقامی ہوٹل میں جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا ، اس موقع پر بھارتی وزیر خارجہ سبرامنینم جے شنکر تقریر کیلئے آئے تو شاہ محمود قریشی نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا اور اٹھ کر باہر چلے گئے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے یہ فیصلہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے اور وہاں 53 روز سے جاری کرفیو کے تناظر میں کیا۔
شاہ محمود قریشی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کشمیریوں کے قاتل کے ساتھ میں بیٹھوں،بالکل ممکن نہیں،بھارت کو تمام کشمیریوں کے انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت کویقینی بنانا ہوگا کہ کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں اور کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہیں۔
اگلے سارک سمٹ کی میزبانی پاکستان کرے گا، شاہ محمود قریشی
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے کشمیر میں بنیادی حقوق کو معطل کیا ہو ا اس لیے ان کی تقریر میں بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا۔
انہوں نے کہا کہ سارک سمٹ کا اجلاس اسلام آباد میں 2016 میں ہونا تھا لیکن بھارت کی جانب سے ہمیشہ کوئی بہانہ تلاش کرلیا جاتا تھا جس کے باعث اجلاس ملتوی ہوتا رہا، ہم نے انہیں کہا ہے کہ پاکستان سارک اجلاس کی میزبانی کرنے کیلئے تیار ہے، ہم نے تمام ممالک کو اسلام آباد میں سارک سربراہی اجلاس کی دعوت دی ہے تاکہ آپس کے معاملات نمٹا سکیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگلے سارک سمٹ کی میزبانی پاکستان کرے گا، پچھلے سال پاکستان میں اجلاس منعقد کرنے پر بھارت نے اعتراض کیا تھا اس مرتبہ خاموشی اختیار کی، سارک باہمی تنازعات سے بالا تر فورم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان رکن ممالک کی آسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اجلاس کی تاریخ طے کرے گا، بطور رکن ملک بھارتی وزیراعظم کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی البتہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ وہ خود کو سارک کا حصہ سمجھتے ہیں یا نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود کا کہنا تھا کہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہیں، ان تمام اقدامات کو نہ صرف کشمیریوں نے مسترد کیا ہے بلکہ خود بھارتی سپریم کورٹ میں بھی کشمیر میں آئینی تبدیلوں کیخلاف 14 پٹیشنز دائر کی گئی ہیں۔ کشمیر کے معاملے پر بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے عائد کردہ جبری ریاستی پابندیوں کو 53 روز ہوچکے ہیں،قابض بھارتی افواج کے ظلم و جبر کے باعث عوام الناس اپنے گھروں میں محصور ہیں، مواصلاتی رابطے منقطع ہیں، دکانیں و کاروبار بند ہیں اور اشیائے خور و نوش سمیت ادویات کی قلت انسانی المیے کو جنم دے رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے اور بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، ریاستی جبر و تشدد کے نتیجے میں متعدد کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔