06 اکتوبر ، 2019
پاکستان کی دو نمبر اشرافیہ نے تعلیم کو یہ سوچ کر عام نہیں ہونے دیا کہ عوام پڑھ لکھ گئے تو ان کا حرام حلال نہیں رہنے دیں گے کیونکہ دراصل علم ہی حرام حلال صحیح غلط، جائز ناجائز، خوب اور ناخوب کی تمیز سکھاتا ہے لیکن اب یہ جہالت ہی ان کے لئے جہنم بنتی جارہی ہے۔ مثلاً اب یہ کہتے ہیں’’درخت نہ کاٹو‘‘ جب کہ عوام کی جانے بلا کہ ’’ماحولیاتی آلودگی‘‘ کیا ہوتی ہے، ان کے نزدیک درخت ایندھن کے سوا ہے ہی کچھ نہیں۔
یہ چاہتے ہیں کہ گند گھروں سے نکل کر گلیوں بازاروں تک نہ آئے جب کہ انہیں اس کا شعور ہی نہیں کیونکہ گندگی ان کے نزدیک نارمل بات بلکہ وے آف لائف کا درجہ رکھتی ہے۔
صرف ٹریفک سینس نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ اربوں روپے کا فیول ہوا ہوجاتا ہے، اب ان کی ضرورت ہے کہ احتجاجوں کے دوران ٹائر جلا جلا کر ماحول برباد نہ کریں لیکن’’سادہ لوحوں‘‘ کو علم ہی نہیں کہ وہ کر کیا رہے ہیں۔ اسی طرح بچپن سے سنتا پڑھتا آیا ہوں کہ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ اور ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ لیکن ’’چائلڈ پروڈکشن‘‘ مشینیں مصروف ہیں کیونکہ جہالت کے باعث انہیں یہ فرسودہ فلسفہ بھاتا ہے کہ ہر بچہ اگر ایک منہ لے کر آتا ہے تو کمانے والے دو ہاتھ بھی ساتھ لاتا ہے۔
انہیں اندازہ ہی نہیں کہ منہ پیدا ہونے سے بھی پہلے خوراک مانگتا ہے جبکہ یہ’’دو ہاتھ‘‘ کم از کم 20 ،22 برس تک’’انویسٹمنٹ‘‘ مانگتے ہیں اور خاص طور پر ایسے حالات میں جب تعلیم باقاعدہ انڈسٹری بن چکی ہے علی ہذالقیاس۔ یہی 22کروڑ جب 32 اور پھر 42 کروڑ ہوئے تو سب کچھ ہونے کے باوجود ’’اشرافیہ‘‘ کو یہ ’’حلقہ انتخاب‘‘ مجبوراً چھوڑنا پڑے گا جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں اور یہ طبقہ اسے’’حلوائی کی دکان‘‘ سمجھتا رہا ہے۔
مجھے یہ ساری باتیں ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کے اس بیان پر یاد آئیں کہ پاکستان میں آبادی کا تناسب اس ملک کے اقتصادی گروتھ ریٹ سے دو گنا ہے جسے سادہ ترین زبان میں سمجھنا ہو تو یہ پرانا گانا دوبارہ سننا ہوگا ....... ’’آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ‘‘۔ یہ ان زمانوں کا گانا ہے جب ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے اور آٹھ آنے کی’’اٹھنی‘‘ ہوتی یعنی تب سے ہمیں بتایا سمجھایا جارہا ہے کہ آمدنی سے دوگنا زیادہ خرچ کرنے والوں کے مقدر میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
آبادی کے تناسب کا اقتصادی گروتھ ریٹ سے دو گنا ہونا اس سے بھی زیادہ بھیانک قسم کی صورتحال ہے لیکن پھر وہی بات کہ ’’آبادی‘‘ کو وہ شعور ہی نہیں دیا گیا جو اسے اچھے برے کی تمیز سکھاتا۔ادھر چیئرمین ایف بی آر کے اس بیان نے بھی بہت سوں کو حقائق کی برف میں لگا کر ٹھنڈا ٹھار کردیا ہوگا کہ’’بیرون ملک بھیجی گئی رقمیں واپس نہیں لائی جاسکتیں‘‘ Moreoverکے طور پر یہ بھی کہا کہ’’ماضی میں پیسہ باہر گیا، اب بھی بھیجا جارہا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے بھی اقوام متحدہ میں اس کا رونا رویا جس پر مجھے بہت ہنسی آئی تھی کہ وزیر اعظم اس’’واردات‘‘ کے بارے میں ان کو بریف کررہے تھے جو اس سارے مالیاتی کھیل کے’’موجد‘‘ ہیں لیکن ہمارے تو کلچر کا حصہ ہے کہ جس کی وجہ سے بیمار ہوئے، عطار کے اسی لونڈے سے دوا مانگتے ہیں۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید یہ سارے کا سارا خطہ ہی بد دعایا ہوا ہے جہاں دلیل منطق نام کی کوئی شے ہی موجود نہیں مثلاً کبھی غور کریں کہ ہمارے ہاں روٹین کی بات ہے آپ کسی کو ٹیسٹ وغیرہ کرانے کا مشورہ دیں تو وہ یہ لاجک دے گا کہ ’’رہنے دو جی اگر ٹیسٹوں میں کوئی مرض وغیرہ نکل آیا تو؟‘‘ سوفیصد اس کبوتر جیسا رویہ جوبلی کو دیکھ کر آنکھیں موند لیتا ہے۔
آپ یا ڈاکٹر ضد پکڑ لے اور اسے ٹیسٹ کرانے پر مجبور کر ہی دیا جائے اور رپورٹ ’’سب اچھا‘‘ کی خوشخبری سنائے تو موصوف کا منہ لٹک کر ناف تک آجائے گا اور اس بات پر کڑھتے پائے جائیں گے کہ ’’اتنے پیسے بھی خرچ کئے اور ٹیسٹوں میں سے نکلا بھی کچھ نہیں‘‘ یعنی کوئی کینسر، شوگر ٹائپ شے نکل آتی تو’’ پیسے پورے ہوجاتے۔‘‘
یہ مائنڈ سیٹ صرف اسی خطہ میں پایا جاتا ہے کہ آپ اقوام متحدہ میں’’مہذب‘‘ قوموں کو وہ کچھ بتاتے ہو جو وہ پہلے سے جانتی ہیں بلکہ اکثر کیسز میں وہی تو مرض کا اصل سبب ہوتی ہیں۔ذکر اس خطہ کا چلے تو کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے پڑوسی کو نظر انداز کردوں کیونکہ پڑوسی کے حقوق تو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہیں۔ بھارت میں ہجوم بلکہ ہجوموں کے ہاتھوں بےگناہ مسلمانوں کے قتل پر نریندرمودی کو کھلا خط لکھنے کی پاداش میں 49 نامور شخصیات کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
الزام یہ کہ ایسا خط لکھ کر بھارت ماتا کو بدنام اور علیحدگی پسندوں کی حمایت کی گئی ہے۔ مقدمہ کے متن میں بغاوت اور امن کو متاثر کرنے کی دفعات بھی شامل ہیں لیکن’’شائننگ انڈیا‘‘ کی یہ شرمناک کہانی یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔’’آزادی‘‘ کے فوراً بعد ہی انتہا پسند ذہنیت نے اپنے باپو گاندھی جی کو مسلم دوستی کے الزام میں قتل کیا۔ اس وقت بھی ایک انگریزی ہفت روزہ میں شائع ہونے والی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر میرے سامنے ہے۔
یہ 30جنوری 1948 کی تصویر ہے جس میں مہاتما گاندھی قتل ہونے کے بعد زمین پر پڑے ہیں۔ ان کے بائیں ہاتھ ان کی ایک چپل پڑی ہے۔ ایک محافظ ان کی لاش پر جھکا انہیں اٹھانے کی کوشش کررہا ہے جبکہ دو محافظوں نے گاندھی جی کے قاتل نتھورام گوڈسے کو جکڑ رکھا ہے۔
یہ اس عمارت کے صحن کی تصویر ہے جسے تب ’’برلا ہاؤس‘‘(دہلی) کہتے تھے۔ اب’’گاندھی سمرتی‘‘ کہلاتی ہے۔ ا ب وہاں ’’نتھورام‘‘ خاصے عام ہوگئے ہیں جنہیں اپنے’’باپو ‘‘ کے قتل پر بھی چین نصیب نہیں ہو رہا کہ باپو کو مارے کے بعد اب اس ناخلف ذہنیت نے گاندھی جی کی ارتھی کی راکھ بھی چوری کرلی ہے اور میوزیم میں موجود مہاتما گاندھی کے مجسمے اور تصویروں پر سبز پاکستانی رنگ پھیر کر گاندھی کو مسلم دوستی کے الزام میں’’غدار‘‘ بھی لکھ دیا ہے 100 ایسے جانوروں سے کہیں بدتر جنونیوں کے ہوتے ہوئے اگر مقبوضہ کشمیر میں کھدائی کے دوران 2700اجتماعی قبروں کا انکشاف ہو تو حیرت کیسی؟
اور یہ انکشاف کسی اور نے نہیں’’نریندری مودی کے اپنے میڈیا نے کیا ہے۔حیرت ہے بھارتی حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں کہ انتہا پسندی کے خون پر پلنے والے یہ عفریت جب واپس پلٹے تو ہندوستان کا حشر کیا ہوگا؟’’جانے کِس کی کسِے بد دعا کھا گئی‘‘۔