پاکستان
Time 08 اکتوبر ، 2019

وفاقی وزیرعلی امین گنڈاپور نے مولانا فضل الرحمان کو قانونی نوٹس بھجوادیا

حکومت مولانا فضل الرحمان کو نوٹس بھیجنے کا شوق پورا کرلے لیکن آزادی مارچ ضرور ہوگا: رہنما جے یو آئی (ف) حافظ حمد اللہ— فوٹو: فائل

وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو قانونی نوٹس بھجوادیا۔

وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان انتخابات ہارنے پر ملک بھر میں گمراہ کن تقاریر اور بیانات سے نریندر مودی کے ایجنڈے کو پرموٹ کر رہے ہیں لہٰذا انہیں 15 دن کا نوٹس کر رہا ہوں جواب نہ آیا تو قانونی کارروائی کی جائے گی، ہمارے پاس اتنے شواہد موجود ہیں کہ ان کو سزا ہو جائے گی‘۔

اب وفاقی وزیر کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کو قانونی نوٹس بھیجا گیا ہے جس میں ان سے جواب مانگا گیا ہے۔

اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ مولانا کے خلاف کارروائی صرف آزادی مارچ روکنے کی کوشش ہے اور ایسے اقدام سے اشتعال پیدا ہوگا جس کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت مولانا فضل الرحمان کو نوٹس بھیجنے کا شوق پورا کرلے لیکن آزادی مارچ ضرور ہوگا۔

 آزادی مارچ اور مجوزہ دھرنے سے متعلق درخواست سماعت کیلئے مقرر

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کا آزادی مارچ روکنے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں شہری کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے۔ 

شہری حافظ احتشام نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر  درخواست میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری تعلیم، الیکشن کمیشن، مولانا فضل الرحمان، چیئرمین پیمرا اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا احتجاج اور دھرنے کا اعلان سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنے پر لیے گئے از خود نوٹس کیس پر دیے گئے عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی پریڈ گراؤنڈ کو اسلام آباد میں احتجاج کیلئے مختص کرنے کا حکم دے رکھا ہے، عوامی مقامات اور سڑکوں پر احتجاج آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے لہٰذا مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ اور دھرنا روکا جائے۔  

اسلام آباد ہائیکورٹ نے مولانا فضل الرحمان کے حکومت مخالف آزادی مارچ اور مجوزہ دھرنے کو سماعت کیلئے مقرر کیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ (کل) بدھ کو مقدمے کی سماعت کریں گے۔ 

یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے حکومت کے خلاف 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے جس کے بعد ملک میں سیاسی گرما گرمی بڑھ گئی ہے۔

آزادی مارچ کے اعلان کے بعد تحریک انصاف کے وفاقی و صوبائی وزراء اور جے یو آئی کے رہنماؤں کے درمیان تندوتیز بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔

فضل الرحمان حکومت کیخلاف کیوں دھرنا دینا چاہتے ہیں؟

25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان سمیت کئی بڑے ناموں کو شکست ہوئی جس کے فوراً بعد جے یو آئی ف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔

19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔

اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے، معاشی بدحالی سے روس ٹکرے ہوگیا اور ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے، ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔

فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 26 اگست کو رہبر کمیٹی اور 29 اگست کو اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی کانفرنس ہوگی، اپوزیشن آج سے حکومت کے خلاف تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے، ان حکمرانوں کو ہٹانے کیلئے قوم ہمارا ساتھ دے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کھل کر مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا تاہم دونوں جماعتیں مولانا کی اخلاقی حمایت کررہی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت دھرنے کی سیاست اور اسلام کے نام پر سیاست کرنے کے خلاف ہیں تاہم اگر کچھ تحفظات دور ہوجائیں تو ان کی پارٹی مولانا کے دھرنے میں شامل ہوسکتی ہے۔

مزید خبریں :