13 اکتوبر ، 2019
ترکی کی جانب سے شامی کُرد ملیشیا کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری ہے اور ترک حکام نے 5 روز کے دوران 480 کرد جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکی کا شام کے شمالی علاقوں میں کُرد ملیشیا کے خلاف آپریشن بہار (پیس اسپرنگ) جاری ہے۔
ترک وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ کُردوں کی سربراہی میں قائم سیرئین ڈیموکریٹک فورس ( ایس ڈی ایف) کے خلاف کارروائی میں اب تک 480 جنگجو مارے جاچکے ہیں جبکہ سرحد کے قریب متعدد دیہات کا کنٹرول ترک فوج نے سنبھال لیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شمال مشرقی شام سے فوجیں ہٹانے پر کہنا ہے کہ امریکا نہ ختم ہونے والی جنگ نہیں لڑ سکتا۔
ایک تقریب سے خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے عظیم فوجیوں اور ہیروز کو واپس گھر لانا ہے، مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کی کئی سالوں تک مداخلت اور سرمایہ لگانے کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوا۔
ترکی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ترکی اور کردوں کے درمیان مصالحت کی پیشکش کو رد کردیا ہے۔
ترک وزیر خارجہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم دہشت گروں کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت نہیں کریں گے، دہشت گردوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہماری جانب سے سیاسی حل کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔
شمالی شام میں ترک فوج کے آپریشن کے بعد فرانس نے بھی ترکی کو اسلحے کی فروخت روک دی ہے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ اور دفاع نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ فرانس کی جانب سے ترکی کے شمالی شام میں آپریشن کے بعد اسلحے کی ترسیل روک دی گئی ہے کیوںکہ یہ اقدام یورپ کے لیے خطرے کا باعث ہوسکتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز جرمنی نے بھی ترکی کو اسلحے کی فروخت پر پابندی لگائی تھی، جرمنی کا کہنا ہے کہ اسے خدشہ ہے کہ یہ اسلحہ شمالی شام میں استعمال ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق شمال مشرقی شام میں جاری لڑائی میں تازہ شدت کے باعث ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد انسان بےگھر ہوچکے ہیں۔
شام میں موجود اقوام متحدہ کے نمائندے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 4 لاکھ تک ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقے میں فوجی آپریشن کیا جارہا ہے جس کا مقصد وہاں سے شامی کرد ملیشیا کو پیچھے دھکیل کر اپنی سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔
ترکی اپنی سرحد سے متصل شامی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ شامی مہاجرین کو بھی وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے۔
اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی) ’جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے‘ کو انقرہ دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور اسے ترکی کے علیحدگی پسند اسیر کرد رہنما عبداللہ اوجلان کی سیاسی جماعت کردش ورکر ز پارٹی کا عسکری ونگ قرار دیتا ہے۔