20 اکتوبر ، 2019
آج کل ’’مذہب کارڈ‘‘ کا بہت چرچا ہے اور میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ اس پر طعنے، تحفظات یا وضاحتوں کا کیا جواز ہے کیونکہ زندگی میں اصل چیز تو چیزوں کا استعمال ہے یا نیتوں کا۔ یہاں تک کہ نیت ٹھیک ہونے کے ساتھ ساتھ استعمال کا ہنر و سلیقہ ہو تو زہر بھی تریاق بن جاتا ہے۔
ایٹمی توانائی سے شہر روشن کرلو یا اسی ایٹمی قوت کے استعمال سے شہروں کے شہر برباد کردو۔ اسلحہ سپاہی کے پاس ہو تو سرحدوں کی حفاظت، کسی راہزن یا ڈکیت کے پاس ہو تو آفت، شہزاد احمد مرحوم یاد آتے ہیں میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کرکانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کرپانی زندگی اور زندگی کی نشانی ہے لیکن یہی پانی بپھر کر اپنی طے شدہ حدود سے باہر نکل جائے تو اسے سیلاب، سونامی، ریٹا کہتے ہیں۔
کوئی جاپانیوں جیسی جفاکش قوم سے پوچھے کہ ’’پانی‘‘ کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح’’آگ‘‘ جیسا غلام کوئی نہیں لیکن خدانخواستہ اگر یہی آگ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے’’آقا‘‘ بن جائے تو ہرے بھرے گھنے جنگلوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیتی ہے اور شہروں کے ساتھ وہ کرتی ہے کہ کبھی نہ بھلائے جانے والے ایسے محاورے جنم لیتے ہیں کہ .....روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجارہا تھا‘‘ اور جہنم کی آگ تو خدا کی پناہ الامان الحفیظ۔’’مذہب کارڈ‘‘ پر
وضاحتیں کیسی؟ بچے کے کان میں اذان سے لے کر نماز جنازہ تک مجھ جیسا’’سیکولر‘‘ بھی صبح کاذب سے پہلے دعا مانگتا ہے اور رات سونے سے پہلے مرحوم والدین کے ساتھ ساتھ ان سب دوستوں کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئےجدا ہوچکے۔ بچپن کے دوست صفدر سعید مرحوم سے لے کر پچھلے چند مہینوں میں بچھڑ جانے والے مسعود داڑھو مرحوم سے لے کر سردار رجب علی پتافی مرحوم تک کے لئے آنسوئوں میں بھیگی ہوئی دعائیں بھی کوئی چاہے تو’’مذہبی کارڈ‘‘ قرار دے لے کہ میں تو کسی کو بددعا بھی نہیں دے سکتاحالانکہ بد دعا نہ دینے کے پیچھے بھی ’’مذہبی کارڈ‘‘ ہی ہے۔
ہماری اکلوتی بیٹی کا نام ہے محمدہ، اس کے کانوں میں اذان میں نے خود دینی تھی کہ قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی آمد کا علم ہوا تو میں نے یہ سوچ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھ’’سیکولر‘‘ سے بدرجہا بہتر مسلمان آرہا ہے سو برادر عزیز و محترم امیر العظیم کے ساتھ جب قاضی صاحب تشریف لائے تو میں نے ان سے کہا کہ’’آپ بیٹی کے کان میں اذان دیں۔‘‘ آج تک قاضی صاحب کے خاندان کے ساتھ ہمارا اک روحانی سا تعلق ہے۔’’ مذہبی کارڈ‘‘ تو میں خود اپنے ساتھ بھی استعمال کرتا ہوں جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی یہ کہے کہ’’ریاست مدینہ‘‘ کی بات کرکے عمران خان’’مذہبی کارڈ‘‘ استعمال کررہا ہے تو بخدا مجھے بہت دکھ ہوگا کہ نیتوں کا حال صرف وہی جانتا ہے۔
مسلمان تو اپنی جگہ.......غیر مسلم بھی اپنی اپنی جگہ، اپنے اپنے فہم کے مطابق مذہبی کارڈز کے ساتھ ہی زندگیاں بسر کررہے ہوتے ہیں۔ عظیم صوفی شاعر کہتا ہے ایہہ رام رحیم تے مولا کیگل سمجھ لئی تے رؤلا کی دعا جو ہر زیست ہے اور دعا کیا ہے؟’’گورے’’ کو ہمارے ہاں مادر پدر آزاد سمجھا جاتا ہے جو بالکل غلط ہے’’اومائی گاڈ‘‘ اور بات بات پہ’’چیسز‘‘ کیا ہے؟ اور جسے ہم دعا کہتے ہیں، گورے اسے"Prayer"کہتے اور"Prayer"بارے ان کے خیالات کیا ہیں؟ MARTIN LUTHERکہتا ہے"THE LESS I PRAY, THE HARDER IT GETS; THE MORE I PRAY, THE BETTER IT GOES."RONALD DUNNلکھتا ہے"PRAYER DOES NOT GET MANʼS WILL DONE IN HEAVEN; IT GETS GODʼS WILL DONE ON EARTH."EDWIN KEITHنے کیسی بات کی"PRAYER IS EXHALING THE SPIRIT OF MAN AND INHALING THE SPIRIT OF GOD."ROBERT LAWRENCEنے تو قلم ہی توڑ دیا"LET US MOVE FROM THEOLOGY TO KNEEOLOGY."گوروں کا محاورہ ہے"CHIN UP, KNEES DOWN"اللہ جانے کس کا جملہ ہے لیکن کبھی بھولتا نہیں"THE QUICKEST WAY TO GET BACK ON YOUR FEET IS TO GET DOWN ON YOUR KNEES."CECIL.B. DEMILLEجیسے عظیم فلم ڈائریکٹر نے کہا تھا"I HAVE FOUND THE GREATEST POWER IN THE WORLD IS THE POWER OF PRAYER."اور"PRAYER MOVES THE HAND WHICH MOVES THE WORLD."یہ سب’’مذہبی کارڈز‘‘ نہیں تو کیا ہے؟صوفیا کہتے ہیں’’دعا قضا کو ٹال سکتی ہے‘‘دور کسی گمنام، گھنے، اندھیرے نے گھپ، گم سم جنگل میں اگر کوئی ایسا قبیلہ موجود ہے جس تک کسی مذہب تو کیا، کسی تہذیب تک کی ایک کرن بھی نہیں پہنچی، مجھے یقین ہے وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں اپنے خالق کے سامنے سر بسجود ہے۔
رحم مادر میں جب انسانی دل کو’’کرنٹ‘‘ ملتا ہے تو دل کی پہلی دھڑکن سے ہی مذہبی کارڈ شروع ہوجاتا ہے اور اس کا استعمال بھی۔ یہ اور بات کہ’’استعمال‘‘ کرنے والے کو اپنی آخری سانس تک اس کا علم نہ ہو۔اور تو اور کبھی کسی امریکی صدر کو الیکشن جیتنے کے بعد باقاعدہ’’ٹیک اوور‘‘ سے پہلے حلف اٹھاتے ہوئے دیکھیں اور غور سے سنیں وہ کہتا کیا ہےبات مذہبی کارڈ کی نہیں، اس کے استعمال اور نیتوں کی ہے اور نیتیں اور ان کا حال صرف ہمارا رب جانتا ہے’’وہی تو ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے‘‘