25 اکتوبر ، 2019
آزادی مارچ سے نمٹنے کیلئے قائم حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ، وزیر اعظم کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہوئی ، رہبر کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ آزادی مارچ کو ڈی چوک تک آنے کی اجازت دی جائے ۔
حکومتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق ڈی چوک پر احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی ، حکومت پریڈ گراؤنڈ میں احتجاج کی اجازت دینے پر تیار ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے وزیر اعظم کو رہبر کمیٹی سے ہونے والے مذاکرات کی اب تک کی پیش رفت سے آگاہ کر دیاہے۔
وزیراعظم کا سخت مؤقف
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے واضح مؤقف اپنایا ہے کہ مارچ کو کسی صورت ڈی چوک نہیں آنے دیں گے، ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جلسے کیلئے پریڈ گراؤنڈ کا آپشن دیا، حکومت اپنی رٹ ہر حال میں قائم رکھنا جانتی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’ ہم نے کوشش کی کہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، اپوزیشن کسی غلط فہمی کا شکار ہے تو شوق پورا کر لے۔
وزارت داخلہ کو مارچ سے نمٹنے کے لیے احکامات جاری
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے وزارت داخلہ کو مارچ سے نمٹنے کیلئے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔
خیال رہے کہ آج حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان آزادی مارچ کے حوالے سے مذاکرات کے دو ادوار ہوئے تاہم یہ دونوں ادوار بے نتیجہ رہے اور کسی بات پر اتفاق نہیں ہوسکا البتہ فریقین نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
پہلے دور کے بعد حکومتی کمیٹی نے وزیراعظم کو اپوزیشن کے مطالبات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ رہبر کمیٹی کے مطالبات میں وزیراعظم کا استعفیٰ، نئے انتخابات، آئین میں اسلامی دفعات کا تحفظ اور سویلین اداروں کی بالادستی شامل ہیں۔
اپوزیشن کے استعفے اور دوبارہ انتخابات کے مطالبات مسترد
تاہم ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے استعفے اور دوبارہ انتخابات کے مطالبات مسترد کردیے ہیں تاہم اب اندر کی کہانی سامنے آئی ہے کہ اپوزیشن نے وزیراعظم کے استعفے کی بات نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ حکومت انہیں صرف ڈی چوک تک آنے کی اجازت دے دے۔
خیال رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) نے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے جس کی جماعت اسلامی کے علاوہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے حمایت کررکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ کا آغاز 27 اکتوبر سے ہوگا اور مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا۔
حکومت کی جانب سے اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے 7 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی وزیردفاع پرویز خٹک کررہے ہیں جبکہ کمیٹی میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی، وفاقی وزراء شفقت محمود، نورالحق قادری اور اسد عمر بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب آزادی مارچ کے اعلان کے بعد سے ہی ملک میں سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگیا ہے۔
حکومت کی آزادی مارچ کو روکنے کی تیاریاں
وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کو روکنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں اور دریائے سندھ پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کو ملانے والے اٹک پل پر کنٹینرز پہنچادیے ہیں، پُل کو بند کرنے کیلئے وزارت داخلہ کے فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے، پل پر کنٹینرز لگانے کا کام جاری ہے تاہم ٹریفک کیلئے ابھی ایک لین کھلی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق وزارت داخلہ کا حکم ملتے ہی اٹک پل کو مکمل بند کردیا جائے گا جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ کے پیش نظر پشاور سے لاہور جی ٹی روڈ بھی بند کیے جانے کا امکان ہے۔
اُدھر وفاقی دارالحکومت میں آزاد کشمیر، پنجاب اور بلوچستان سے اضافی پولیس نفری طلب کرلی گئی ہے جنہیں ٹھہرانے کیلئے اسلام آباد کی سرکاری عمارتیں خالی کرانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد کو کنٹینرز سٹی بنادیا گیا ہے اور شہر میں 400 سے زائد کنٹینرز پہنچا دیے گئے ہیں جبکہ ڈی چوک اور ملحقہ سڑکوں کو کنٹینرز لگاکر بند کیا جاچکا ہے۔
اسلام آباد اور کراچی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جن پر مختلف مقدمات بنائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔